Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bint e Aslam
  4. Kaafir, Zalim Aur Fasiq

Kaafir, Zalim Aur Fasiq

کافر، ظالم اور فاسق

اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔ (5:44)، اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ ظالم ہیں۔ (5:45)، اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں۔ (5:47)

یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں: ایک یہ کہ وہ کافر ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔

اس کا صاف مطلب یہ ھے کہ جو انسان اللہ تعالی کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے، وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ھے:

اوّلاً اس کا یہ فعل حکمِ خداوندی کے انکار کا ہم معنی ھے اور یہ کفر ھے۔

ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ھے، کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہو سکتا تھا وہ تو اللہ تعالی نے دے دیا تھا، اس لیے جب احکم الحاکمین کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔

تیسرا یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا، اور یہی فسق ھے۔

یہ کفر، ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً حکم خداوندی سے انحراف کی عین حقیقت میں داخل ہیں۔ جو شخص حکم الہٰی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ھے، وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ھے۔ اور جو اعتقاداً تو حکم الہٰی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ھے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ھے، مگر اپنے ایمان کو کفر، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ھے۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکم الہٰی سے انحراف اختیار کر لیا ہے، وہ تمام معاملات میں کافر، ظالم اور فاسق ہے۔ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ھے، اس کی زندگی میں ایمان و اسلام کے ساتھ کفر و ظلم و فسق کی آمیزش موجود ھے۔

ھمارا حال بھی انہی میں سے کسی ایک جیسا ہو چکا ھے۔ دل و جان سے اسلام کے نام پر مر مٹنے کے دعوے کرنے والے اپنی زندگیوں میں اسلام کے مطابق فیصلے کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔ بچے کی پیدائش پر ہونے والی رسومات سے لیکر شادی بیاہ اور فوتیدگی تک کے تمام معاملات کے فیصلوں میں ہم نے خود کو معاشرتی رسم و رواج کا پابند بنا رکھا ھے۔ کبھی کسی نے سوچنے کی کوشش ہی نہیں کہ ایک عرصہ تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہماری بے مثال اسلامی تہذیب میں ہندووانہ رسمیں گھل مل گئیں۔ ہم نے زمین کا ٹکڑا تو اسلام کے نام پر علیحدہ حاصل کر لیا لیکن ہمارے نظریات، سوچ، رسم و رواج آج بھی ہندوؤں کی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکے۔ بہت سے معاملات میں ہم صرف اور صرف لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اورمعاشرتی رسم و رواج سے انحراف پر خاندان اور اردگرد موجود لوگوں کی ناراضگی کے ڈر سے قرآن کی بات پر عمل نہیں کرتے جبکہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ھے:

جو شخص لوگوں کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ھے اور اللہ کی رضا والا ہی کام کرتا ھے تو اللہ اسکی مدد کرتا ھے اور لوگوں کی تکلیفوں سے اسکو بچا لیتا ھے اور لوگوں کو بھی اس سے خوش کر دیتا ھے جبکہ وہ شخص جو لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں اللہ کو ناراض کر دیتا ھے تو اللہ تعالی اس شخص کو لوگوں کے سپرد کر دیتا ھے اور نہ ہی اسکی مدد کرتا ھے۔ (مشکوة المصابیح: 5130)

ہمارے نزدیک دین وہ ھے جو معاشرے کے اکثریت لوگ نیکی اور ثواب کے نام پر جو بھی کام شروع کر دیں تو ہم اسی کو دین سمجھ کر اپنا لیتے ہیں۔ جو بھی زمانے میں عام رواج بن گیا بس اسی کو دین کا حصہ سمجھ لیا۔ جبکہ اصل دین تو وہی ھے جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ چاہے اس پر عمل کرنے والا ایک ہی انسان کیوں نہ ہو۔

اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر ڈالیں گے۔ وہ تو وہم و گمان کے سوا کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے، اور ان کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی اندازے لگاتے رہیں۔ (6:116)

اللہ پاک نے انسان کو باشعور بنایا ھے۔ دانستہ طور پر اپنی سوچ، ذہن، دل و دماغ کو لاشعوری اور غفلت سے نکالیں۔ قرآن کو سمجھیں اور قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کے معاملات کو ڈھالیں۔ اصل نجات کا راستہ اسلام کو مکمل اپنانے میں ہی ھے، اسی میں گھروں کا سکھ اور چین ھے اور اسی میں پر سکون زندگی ھے۔

قرآن اور سنت کا علم حاصل کرنا نا گذیر ھے ورنہ ہمارے نام تو عائشہ، خدیجہ، فاطمہ ضرور ہونگے لیکن اعمال ہندو رسومات کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہی رہ جائیں گے۔ اسلام کی اصل روح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری نیکیوں کی حیثیت محض اس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر اللہ تعالی دھوکا نہیں کھا سکتے، راہِ نجات اسلام کو مکمل اپنانے میں ہے۔

Check Also

Dil Ka Piyala

By Tauseef Rehmat