Islam Barabari Ka Dars Deta Hai
اسلام برابری کا درس دیتا ہے
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔ سورة الحجرات ﴿۱۳﴾
(اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔)
جابر رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ الوداع ارشاد فرمایا: اے لوگو تمہارا رب ایك ہے، تمہارے والد(آدم)ایك ہیں، خبردار كسی عربی كو عجمی پر كوئی فضیلت نہیں، نہ كسی عجمی كو كسی عربی پر فضیلت ہے۔ نہ كسی سرخ كو سیاہ پر اور نہ كسی سیاہ كو سرخ پر فضیلت ہے سوائے تقویٰ كی صورت میں۔ تم میں سے اللہ كے نزدیك عزت والا متقی شخص ہے۔ (سلسلةالصحیحہ 1164)
درج بالا قرآن مجید کی آیت اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی رو سے عزت اور برتری کا معیار صرف اور صرف تقوی ہے لیکن افسوس پاک و ہند میں رہنے والے مسلمانوں نے اسلام کے اس برابری کے تصور کو ذات پات کے بت میں دفن کر دیا۔ ہم میں سے ہر ایک خود پر اعلی ذات کا ہونے کالیبل لگا کر اپنے آپ کو مختلف خصوصیات کا حامل تصور کر بیٹھا ہے۔ کوئی سخی دل ذات سے تعلق رکھتا ہے تو کوئی اپنا تعلق بہادر اور کامیاب ذات سے رکھنےکا معترف ہے۔ اعلی ذات سے تعلق رکھ کر ایک انجانے تکبر میں مبتلا ہونا ہمیں یہ حدیث بھی پسِ پشت ڈلوا دیتا ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ہمارے ہی جیسے انسانوں میں سے بعض کو کنجوس اور کسی دوسرے کو رذیل اور گھٹیا ذات کا قرار دے دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور عقل و فہم کو استعمال کر کے اس بات کا جواب دے کہ اگر کپڑا بننے والا جولاہا، لوہے کا کام کرنے والا لوہار وغیرہ معاشرے میں "کمّی" کی حیثیت رکھتے ہیں تو پھر وہ جن کی کپڑا اور لوہا بنانے کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں وہ تو سب سے بڑے کمّی ہوئے لیکن وہ "سیٹھ صاحب" کیسے بن جاتے ہیں۔
ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ اسلام کی تعلیمات سے اسکا کوئی تعلق نہیں، اسلام نے ذات پات کی جس خود پسندی کو جاہلیت قرار دیا ہم اسی بات کو بڑی شان سے بیان کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہمیں اللہ پاک اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے ہٹ کر اپنے ذہنی عقائد اور معاشرتی رسم و رواج عزیز ہیں۔
یقین مانئے ہماری یہ بلندوبالا ذاتیں قبر یا حشر میں ہمیں کوئی خصوصی رعایت دلوانے کا ذریعہ نہیں بنیں گی۔ اگر ایسا ہوتا تو مکہ کے بہت سے بڑے بڑے ناموں کے قابلِ تحسین حسب و نسب ان کو جہنم کی آگ سے بچا لیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو اپنی پیاری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ تک سے کہا کہ بیٹی آخرت کے لئے اپنی تیاری کرلو۔ میں وہاں آپکے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔
قرآن پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ: وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ
اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔ لیکن آج کا "بیچارا" انسان:
رشتوں سے بڑھ کر انا ہے مجھے
اصل سے بڑھ کر بناوٹ ہے مجھے
میٹھے بول سے بڑھ کر کڑوے طعنے ہیں مجھے
دل رکھنے سے بڑھ کر دل آزاری ہے مجھے
تکریمِ آدمیت سے بڑھ کر تحقیرِ انسانیت ھے مجھے
سکونِ قلب سے بڑھ کر حب جاہ ہے مجھے
کسی کاحوصلہ بننے سے بڑھ کر حوصلہ شکنی ہے مجھے
یقین سے بڑھ کر شک ہے مجھے
دینِ حق سے بڑھ کر معاشرتی رکھ رکھاؤ ھے مجھے
اسلام سے بڑھ کر جاہلیت ھے مجھے
اسلام سے بڑھ کر جاہلیت ھے مجھے
اسی لئے تو اقبال نے فرمایا تھا:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندہ بنوں گا جسکو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
لاشعوری سے شعوری تک کا یہ سفر ہم سب کو آج سے ہی شروع کرنا ہوگا ورنہ بہت دیر ہو جائیگی۔ راہِ نجات اسلام کو مکمل اپنانے میں ہے۔ اللہ پاک ہم سب کی اصلاح فرمائیں اور ہر قسم کے تکبر سے بچائیں اور تقوی کی صفت سے نواز کر حقیقی عزت والا بنائیں۔ آمین