Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bint e Aslam
  4. Haqiqi Rishte

Haqiqi Rishte

حقیقی رشتے

خوش نصیب ہیں وہ بچے جن کے ماں باپ نے انکو رشتوں سے پیار کرنا سکھایا۔ کس قدر رحمتیں نازل ہوتی ہوں گی ان گھروں پر جہاں بچوں کو ماموں، چچا، پھوپھو، خالہ سے محبت سکھائی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہی حقیقی رشتے ہیں۔ ان رشتوں میں دید کا جو حسن اسلام نے رکھا ہے وہ نقلی ماموں، خالہ یا چاچو میں کہاں مل سکتا ہے۔ یہ تو ہم دین سے دور لوگوں کی بے وقوفی ہے جو بچوں کو اپنے میل جول کے منہ بولے بہن بھائیوں سے محبت اور احترام تو سکھاتے ہیں لیکن خونی رشتوں کے پیار کی تڑپ سے محروم کر دیتے ہیں۔

کتنے بابرکت ہیں وہ گھر کہ جہاں آج بھی پھوپھو کے آنے کے انتظار میں بچے دن گن گن کر گذارتے ہیں اور پھر انکے آنے پر بچوں کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔ ورنہ کچھ گھرانے ایسے بھی ہیں کہ جہاں رشتوں کی دوری وقت کے ساتھ طول پکڑتے ہوئے بچوں کے ذہنوں سے ان حقیقی رشتوں کے چہرے کے نقوش تک مٹا دیتی ہے۔ اکثریت گھروں میں بچوں کے ذہنوں میں پھوپھو کا تصور العیاذ باللہ کسی بھوت کے روپ میں بٹھا دیا جاتا۔ بچوں کو پیدا ہوتے ہی ددھیال سے نفرت سکھانا شروع کر دی جاتی ہے۔ بچوں کو کبھی اپنے ذہن سے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا اور ماں باپ اپنے ذہن سے نفرت کے بیج کا ایک پودا بچے کے ذہن میں اگا دیتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کہ ظلم یہ کہ اگر کبھی بچہ بڑا ہو کر اپنے حقیقی رشتوں کی قدر اور احترام کرنا سیکھ لے تو والدین اسے باغی ہونے کا طعنہ دے کر رشتوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بچے اس ذہنی کشمکش میں شدید الجھن اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں کہ کیا ہم اپنے خالقِ حقیقی کی بات مانیں یا اپنے محترم والدین کی بات مانیں۔ ادب اور گستاخی، گناہ اور ثواب کی اس کشمکش میں بچے اندر ہی اندر گھٹ رہے ہوتے لیکن اپنے خیالات کو زبان پہ لانے کی جرأت نہیں کرتے کہ کہیں ہماری خیالات کی اس بغاوت کو بے ادبی اور گستاخی کا لیبل لگا کر ہمیں جہنم کی وعید ہی نہ سنا دی جائے۔

ہم اپنے بچوں کو حقیقی رشتوں کی محبت سے محروم کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم چاہتے ہیں ہمارا بچہ صرف انہی رشتوں میں ہی پیار ڈھونڈے کہ جن کا ہمارے ساتھ اچھا تعلق ہے۔ ہم بچوں کو بچپن میں ہی سکھا دیتے ہیں کہ رشتہ داری دو طرفہ تعلق ہے، جو تم سے ملے تم بھی اسی سے ہی اپنے تعلقات رکھو جبکہ رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے توڑے تم اس سے بھی جوڑو۔ نہ جانے کیوں ہم بچوں کو اللہ کی اطاعت کی بجائے اپنی رائے کی اطاعت سکھاتے ہیں۔ ہم بچے کو اسلام کے احکامات کا پابند بنانے کی بجائے اپنے بے جا حکموں کا پابند دیکھ کر راضی ہوتے ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ:اللہ تعالی کی نافرمانی کے کسی بھی کام میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔

صلہ رحمی کے بارے میں تو کتنی ہی احادیث موجود ہیں۔ مختصراً ایک حدیث پر ہی اکتفا کرتی ہوں کہ لایدخل الجنة قاطع رحم، رشتہ داری کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ لیکن افسوس ہمیں اپنی انا اور اس دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ سے اس قدر پیار ہے کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ بچوں کی جنت کو بھی داؤ پہ لگا دیتے ہیں۔ کیا جواب دیں گے اللہ پاک کو کہ ہم دنیا میں کسی سے نیچا نہیں ہونا چاہتے تہے اسلئے ہماری انا نے ہمیں رشتوں سے دور کئے رکھا؟

سب رنجشیں، عداوتیں بھلا کر صرف اور صرف اللہ پاک کی رضا اور محبت پانے کی خاطر خود بھی رشتوں سے محبت کرنا سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی ہر رشتے سے محبت کرنا سکھائیں۔۔ مجہے پتہ ہے یہ کہنا آسان ہے لیکن آپکو ایک بات بتاؤں اللہ کی رضا اور محبت پانے کیلئے انسان کیلئے یہ سب کرنا کہنے سے بھی زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ بس ایک کام کرنا ہے ہم نے اپنی رائے، دل، انا، خودداری غرض کہ ہر شے کو اللہ کی اطاعت میں ڈھال لینا ہے۔ جب "رب کا حکم" کا مطلب سمجھ میں آگیا تو پھر ان شاء اللہ ہم دل کو رب بنانا چھوڑ دیں گے۔ اور اپنی رائے اور دل کو اللہ پاک کی اطاعت کے تابع کرنے کیلئے بھی تو اللہ پاک سے ہی توفیق مانگنی ہے۔ یقین جانیں یہ دنیا کی زندگی تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ آخرت کی فکر کریں جو نا ختم ہونے والی زندگی ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔ نہ جانے کس موڑ پر یہ سانسیں ساتھ چھوڑ جائیں۔ راہِ نجات اسلام کو مکمل اپنانے میں ہے۔۔۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza