Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Bint e Aslam/
  4. Aakhri Saansein

Aakhri Saansein

آخری سانسیں

اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔ (15:99)

انسان اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور قرآن پاک میں انسان کی زندگی کی مثال زمین میں اگنے والی کھیتی سے دی گئی ہے کہ جو بیج سے کونپل اور کونپل سے مضبوط تنے کی شکل اختیار کرتے ہوئے اپنے جوبن پر پہنچ جاتی ھے اور آخرکار کاٹ دی جاتی ھے اور پھر اسکی جگہ کوئی نئی فصل اگا دی جاتی ہے۔ انسان بھی اپنی زندگی میں بچپن، لڑکپن اور جوانی کے مراحل طے کرتا ہوا بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے جس بھی مرحلے میں ہوں موت ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے کیونکہ کوئی انسان نہیں جانتا کہ کس لمحے وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اسلئے ہمیں حسن الخاتمہ کی دعا مانگتے رہنا چاہیئے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔ (بخاری:6493)

مختلف لوگوں کے جان کنی کے لمحات کے مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ انسان کا دل زندگی میں جن اعمال کی طرف رغبت رکھتا ہے موت کے وقت خود بخود انسان کی طبیعت کیلئے وہی عمل سہل بنا دیے جاتے ہیں۔ جنکی زبانیں زندگی میں اللہ پاک کے ذکر میں مشغول رہتی ہیں آخری لمحات میں یہ ذکر خودبخود انکی زبان پہ جاری ہو جاتا ہے۔ اسکا عام مشاہدہ ہم اپنی زندگی میں بھی کرتے ہیں کہ انسان پہ جب جب بھی پریشانی کے لمحات آتے ہیں تو فورًا ہمیں اپنا کوئی ہمدرد دوست یاد آتا ہے کہ جو اس مشکل میں ہمارا ساتھ دے سکے۔ اب جنہوں نے دوست ہی اللہ تعالی کو بنایا ہو اور اپنی زبانوں کو اللہ کے ذکر کا عادی بنایا ہو تو ایسے لوگ پریشانی آنے پہ بھی لوگوں میں سہارا ڈھونڈنے کی بجائے اللہ سبحانہ و تعالی کو پکارتے ہیں جو کہ نعم المجیب ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہیئے کہ اپنا جائزہ لے کہ پریشانی آنے پہ میرا طرز عمل کیا ہے تو وہی عمل ہی سب سے بڑی سختی یعنی موت کے وقت اسکے لئے سہل بنا دیا جائیگا۔

اس موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے قاضی شریح رحمہ اللہ کا واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ جب انہوں نے ایک شخص کو سنا کہ اپنے دوست سے اپنے رنج و غم کی فریاد کر رہا ہےتو قاضی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میری یہ آنکھ دیکھو۔ اللہ کی قسم اس آنکھ نے گذشتہ پندرہ برس سے کچھ نہیں دیکھا، اس آنکھ کی بینائی ختم ہو چکی ہے لیکن یہ بات اللہ تعالی کے سوا کسی ایک بھی شخص کو نہیں پتہ، صرف آج تمہاری نصیحت کےلئے ذکر کر رہا ہوں۔ کیا تم نے قرآن پاک میں نہیں پڑھا: میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ (12:86)۔ سوچیں جنکا اپنی زندگی میں اللہ تعالی سے اتنا گہرا لگاؤ تھا، سکرات الموت میں انکا اللہ تعالی سے کتنا خوبصورت رابطہ ہوگا۔

آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کچھ لوگ اپنی زندگی میں ہر وقت واویلے شکوے کرنیوالے ہوتے ہیں۔ اپنی پریشانیوں میں خود کو مظلوم اور دوسروں کو مجرم ثابت کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے لوگ زندگی کے آخری لمحات میں بھی ہائے ہائے کرتے ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے پوری عمر لوگوں کے عیب گننے اور چغلیاں کرنے میں بیتائی یوتی ہے تو ایسے لوگ آخری سانسوں میں بھی اسی منفی سوچ کو اپنا ہمسفر بنا کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ جو پوری زندگی دوسروں کے حقیر اور اپنے بڑا ہونے کے دعوے کرتے رہتے ہیں وہ اپنے آخری لمحات بھی اسی انا کی نظر کر دیتے ہیں۔ کچھ بد نصیب جنہوں نے زندگی بھر موسیقی کو اپنی روح کی غذا بنا رکھا ہوتا ھے تو عمر کے آخری حصے میں بھی انکی روح اسی قسم کے لہو و لعب کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے اور کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہیں کہ آخری سانسیں نکل رہی ہیں اور زبان پر اللہ وحدہ لا شریك کی وحدانیت کا ذکر جاری ہے اور ہونٹوں پر اپنے حقیقی محبوب اللہ تعالی سے ملنے کے شوق کی مسکراہٹ چھائی ہوتی ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ ہم خود بخود آخری لمحات میں زبان سے کلمہ ادا کر لیں گے۔ ہمیں غلط لگتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ تو اللہ پاک کی توفیق کے بغیر ممکن ہی نہیں اور توفیق مانگنے سے ملتی ہے۔ قیامت والے دن بھی تو ایسا ہی ہوگا جب اللہ جل جلالہ کے حضور لوگوں کو سجدے کا حکم ملے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں نماز نہیں پڑھتے تھے یا لوگوں کے ڈر سے یا دکھاوے کیلئے نماز پڑھتے تھے ان سے اس دن سجدہ کی توفیق چھین لی جائیگی۔ انکی کمر کو تختہ بنا دیا جائیگا۔ سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن منہ کے بل گر جائیں گے۔ کیسی رسوائی اور شرمندگی کا مقام ہوگا انکے لئے۔

اپنی صحت کے دنوں میں ہی اپنی زبان کو اس چیز کا عادی بنا لیں کہ جس چیز کو آپ اپنے اس دنیائے فانی کے آخری سفر کا ساتھی بنانا چاہتے ہیں۔ جس عمل پہ ہماری جان نکلے گی اسی عمل پہ ہی روزِ حشر ہمیں اٹھایا جائیگا۔ جیسے مرضی حالات ہوں فرائض کی پابندی میں کوتاہی ہرگز ہرگز نہ کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت کبھی نہ چھوڑیں۔ دن کے مختلف اوقات میں مسنون اذکار کو اپنا معمول بنا لیں اور سحری کے وقت استغفار کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔

اللہ تعالی ہم سب کو حسن الخاتمہ سے نوازیں اور جنت الفردوس کی لازوال نعمتوں کا مستحق بنائیں۔ آمین۔ راہِ نجات اسلام کو مکمل اپنانے میں ہے۔

Check Also

Izhar e Raye Ki Azadi

By Abubakr Syedzada