Khof Ke Saaye Mein Palte Hue Log
خوف کے سائے میں پلتے ہوئے لوگ
خوف ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے یہ انسانی جبلت کا بنیادی جذو ہے مگر اس کیفیت کا تسلسل کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا، پیدائش سے موت تک انسان خوف کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔
کسی کو ناکام ہونے کا خوف ہے تو کسی کو چھوٹے قد کا خوف ہے، کوئی مال کے کم ہونے کے خوف میں مبتلا ہے تو کوئی مال کے لٹ جانے سے لرزاں ہے، بہت سے لوگوں کے پاس ضرورت کا سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ پھر بھی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں یہ آسائشیں ختم نہ ہو جائیں، کچھ خوف سبھی انسانوں پر یکساں نازل ہوتے ہیں جیسے موت کا خوف، خوف کی یہ قسم ہر جاندار کی جبلت میں ہے، ساری زندگی وہ اس خوف سے لڑتا ہے اور آخر کار اسی خوف کے ہاتھوں شکست کھا جا تا ہے۔ اسی طرح ہر انسان مستقبل کی غیر یقینی صورت حال سے پریشان رہتا ہے، شروع سے ہی انسان جنگ و جدل سے خوف زدہ رہا ہے خدا کا خوف بھی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے۔
پوری میڈیکل سائنس خوف پہ کھڑی ہے، ڈاکٹر اگر لوگوں کو ڈرائیں نہ تو شاید کوئی ہسپتالوں کا رخ نہ کرے، ڈاکٹر ڈرا ڈرا کر ہی مریض کے بے تحاشا ٹیسٹ کرواتے ہیں، ان سے پیسے بٹورتے ہیں، وہ یہ بھی تو کہ سکتے ہیں کہ ٹیسٹ کروانے سے مرض کی تشخیص میں آسانی رہے گی اور بہتر علاج ممکن ہو سکے گا مگر وہ آپ کو مر جانے کا خوف دلاتے ہیں۔
انشورنس بیچنے والے آپ کو مستقبل کی غیر یقینی صورت حال سے ڈرائے گا، مسجد کا مولوی لوگوں کو خدا سے ڈرا کر خوف زدہ کرتا ہے، تاکہ وہ خدا کی عبادت کریں۔
خوف بنیادی طور پر رکاوٹ ڈالتا ہے، مسدود کر دینے والا عمل ہے خوف دلانے والے کا مقصد بھی روکنا ہی ہوتا ہے، ایسے حالات میں انسان خدا کی طرف کیسے بڑھ سکتا ہے، وہ شاید خدا کے خوف سے گناہ کرنا تو چھوڑ دے مگر وہ خدا سے محبت نہیں کر سکتا ہے، کیا خدا واقعی ہمیں ڈراتا ہے یا ہماری خدا کے خوف کی تعبیر ہی غلط ہے؟ ایک ہی چیز سے خوف اور محبت نہیں ہو سکتی۔
خوف کے سایوں میں بڑھتے اور پلتے لوگ اور معاشرے کبھی ترقی نہیں کرسکتے، تخلیقی اور تحقیقی سرگرمیاں ہمیشہ آزاد ذہنوں میں پروان چڑھتی ہیں۔
خوف سے آزادی ہی حقیقی آزادی ہے۔ شاعر، ادیب، فلاسفر، سائنس دان خوف سے آزاد لوگ ہی ہوتے ہیں۔ خوف خیالی ہے جبکہ خطرہ حقیقت ہے، خطرہ وقتی ہو سکتا ہے مگر خوف مستقل پریشان رکھتا ہے۔ ہمارے خوف اور ڈر کی بنیاد اگر سے شروع ہوتی ہے اگر ایسا ہوگیا تو کیا ہو گا اور اگر ویسا ہو گیا تو کیا ہوگا۔
ہمارے خوف ہمارے لیے ہماری حد، ہماری قید بن جاتے ہیں، یہ خوف آپ کے آئیڈیاز کو کبھی پریکٹیکل نہیں ہونے دیتا، آپ کی توانائی ختم کر دیتا ہے، آپ کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتا ہے، آپ کے سوالات چھین لیتا ہے۔
خوف مستقل کیسے ہوتا ہے، اس کی جڑیں ہمارے بچپن سے جڑی ہوتی ہیں، بچپن میں ہمیں ڈرایا جاتا ہے کہ بلی آ جائے گی، کتا کاٹ لے گا بچپن کے یہی خوف پلتے رہتے ہیں اور جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو جونہی بلی اور کتا ہاتھ لگتے ہیں تو ہم ان کو مارتے ہیں، اصل میں کتا اور بلی ہمیں کچھ نہی کہتے بلکہ یہ ہمارا خوف ہے جو ہمیں بچپن میں سکھایا گیا تھا۔
زندگی میں موٹرسائیکل سے شاید آپ ایک دفعہ گرتے ہیں مگر خوف کا سانپ دماغ میں کنڈلی مار کربیٹھ جاتا ہے اور ہر وقت ڈستا رہتا ہے اور جب بھی آپ کسی کو گرتے ہوئے دیکھتے ہیں آپ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔
ہم ایک دوسرے کو ڈراتے رہتے ہیں، سینئر جونیئر کو، استاد شاگرد کو، بڑا چھوٹے کو، طاقتوار کمزور کو، امیر غریب کو، ڈاکٹر مریض کو، ماں باپ بچوں کو، ہم سب خوف کے سایوں میں پلتے ہیں، چاہیے تو یہ کہ ہم استعداد کار بڑھائیں اپنے سے چھوٹوں کی، اپنے جونیئر کی، اپنے شاگرد کی، اپنے بچوں کی مگر ہم سب ایک دوسرے کو خوف زدہ کرتے ہیں، مستقل خوف زدہ رہنا روگ بن جاتا ہے جس سے چھٹکارہ کافی مشکل کام ہے اور اس کے انسانی نفسیات پہ بڑے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ابن سینا نے اک تجربہ کیا اور دو میمنوں کو ایک پنجرے میں رکھا، دونوں میمنے ہم وزن، ہم عمر اور ایک ہی نسل کے تھے، دونوں کو ایک ہی قسم کا چارہ دیا گیا، تما م خالات ایک جیسے رکھے گئے۔
ابن سینا نے میمنوں کے پنجرے کی ایک طرف ایک دوسرا پنجرہ رکھا اور اس میں اک بھیڑیا رکھا اور میمنوں میں سے صرف ایک میمنا بھیڑے کو دیکھ سکتا تھا، کئی مہینوں بعد جو میمنا بھیڑیے کو دیکھتا رہتا تھا مر جاتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت خوفزدہ رہتا تھا، اگرچہ بھیڑیے نے میمنے کو کچھ نہیں کہا تھا مگر میمنا اُس خوف اور دباؤ کی وجہ سے مر گیا جو وہ ہر وقت محسوس کرتا رہتا تھا جبکہ دوسرا میمنا جو بھیڑیے کو دیکھ نہیں سکتا تھا اچھی طرح کھاتا پیتا تھا، خوش رہتا تھا اس کا وزن بھی بڑتا گیا اور وہ صحت مند بھی تھا۔
اس تجربے سے ابنِ سینا نے انسانی جسم اور صحت پر ذہنی اثرات کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا مشاہدہ کیا۔ غیر ضروری خوف، فکر، اضطراب اور تناؤ انسانی جسم کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
ٓاگر آپ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو اپنی راہ میں آنے والے ہر خوف کو نظر انداز کرنا سیکھیں پھر ہی آپ کامیابی کی سیڑھیا ں چڑ سکیں گے ورنہ خوف آپ کو تھکا کر مار دے گا۔