Hamare Social Engineers
ہمارے سوشل انجینیرز
جس طرح انسان کی مادی ضرورتیں ہیں ایسے ہی انسان کی روحانی ضرورتیں بھی ہیں، مادی ضرورتوں میں انسان نے جہاں کھانے کے لیے مختلف پکوان، پہننے کے لیے لباس، چلنے کے لیے جوتا، سفر کے لیے گاڑی، پانی پہ چلتے ہوئے بحری جہاز، شکار کے لیے بندوق، اور ضرورت کی بے شمار اشیاء بنائی ہیں، جیسے مادی ترقی کے اس سفر کو آسان اور کامیاب بنانے کے لیئے سول انجینیئرز، الیکٹریکل انجینیئرز، کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے انجینیئرز کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روحانی ترقی اور بالیدگی کے لیے شاعر ادیب، تاریخ دان، فلسفی، استاد، ڈرامہ نگار، پینٹنگ کے ماہر اور گانے والے بھی بہت ضروری ہیں۔
شاعر اور ادیب زمانہ ساز لوگ ہوتے ہیں، دکھ سکھ غم اور خوشی کو زبان شاعر ہی دیتا ہے، فطرت کے مظاہر کا ترجمان شاعر اور ادیب ہی ہے، انسان کے ماضی اور مستقبل کے اصل محافظ شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار اور موسیکار ہی ہوتے ہیں، کیسے کیسے شاہکار ہیں جو ان لکھنے والوں نے تراشے ہیں، گانے والوں نے گائے ہیں، ہیر کو اگر وارث شاہ نہ ملتا تو کون جانتا اسے، لاکھوں کروڑوں سالوں کی کہانیاں ہم تک ان لکھنے والوں، گانے والوں کی وجہ سے پہنچی ہیں ایک شاعر ہی دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن جانتا ہے جنگ و جدل سے کوسوں دور امن کا خواب لیئے صدیوں سے انسانوں کی امید شاعر اور ادیب ہی ہیں۔
شاعروں، ادیبوں، موسیکاروں نے معاشرے کو ساکت و جامد اور مردہ ہونے سے بچایا ہے، ادب ہی معاشرے کے وجود کو چار چاند لگاتا ہے، الفاظ اور زبانوں کی ایجاد سے پہلے بھی "ادب" قدیم انسانی تہذیبوں میں نظر آتا ہے، اس سے قبل کہ دُنیا میں بولی جانے والی زبانیں ایجاد ہوئیں، روزمرہ واقعات سے جنم لینے والی کہانیاں سُنائی جاتی تھیں اورآنے والے ادوار کے انسانوں کے لئے انہیں غاروں کی دیواروں اور پتھرکی تختیوں پر تحریر کیا جاتا تھا، اس سے قبل بھی کہ بنی نوع انسان نے الفاظ پڑھنے اور لکھنے شروع کئے، "ادب" اس دُنیا میں وجود رکھتا تھا۔
قدیم غاروں کی دیواروں پر کھدائی سے لکھی تحریریں اور تصاویر ابتدائی انسان کے وجود اور طرزِ حیات کا ثبوت پیش کرتی ہیں، دُنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے تہذیبِ مصر کے بلند و بالا اہراموں میں دیواروں پر کُندہ تحریریں اور تصاویر کتنی ہی کہانیوں کے ثبوت ہیں جو یہاں صدیوں سے مدفون ہیں، الہامی اور غیر الہامی مذاہب کی مقدس کُتب جن میں توریت، زبور، انجیل مقدس، قُران مجید، بھگوت گیتا، رامائن اور ویدھ کا شمار بھی ادبی لحاظ سے معتبر تصور کیا جاتا ہے، ان کُتب میں زندگی کے بھیدوں اور اسرار کو وضاحت سے لکھا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک ایماندار زندگی گذارنے کے لئے آئین اور قوانین کو مرتب کیا گیا ہے۔
شعراء اور ادباء ایک طرح سے استاد کے منصب پر ہی فائز ہوتے ہیں، استاد کی ایک معاشرے میں اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے، اس حوالے سے میکسم گورکی نے عظیم افسانہ نگار چیخوف کے ساتھ اپنا ایک مکالمہ درج کیا ہے کیا خوبصورت اور دل کو موہ لینے والی بات کہی ہے، چیخوف نے کہا "کیا تمہیں اندازہ ہے روس کے دیہی علاقوں میں سب سے زیادہ ضرورت کس کی ہے، پڑھے لکھے اچھے اور سمجھدار اساتذہ کی، روس میں ہمیں فوری طور پر غیر معمولی ماحول تیار کرنا ہوگا کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ روس کی ریاست تباہ ہو جائے گی اگر ایسے اساتذہ اس معاشرے میں نہیں ہوں گے جو قریب قریب سب علوم کو جانتے ہوں"۔
ایک شاعر، ادیب اور دانشور بھی معاشرے کے ان پڑھ، نہ جاننے والوں کے لیے استاد کی حیثیت ہی رکھتا ہے، عظیم لکھاری کے نشانی یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے میں سفاکیت ظلم و جبر اور جنگ و جدل کی جگہ امن و محبت بھائی چارے اور رواداری کا درس دیتا ہے اور فطرت کی رنگا رنگی میں مزید نکھار پیدا کرتا ہے، عظیم دانشور فریڈرک ایس ہیفر لکھتے ہیں"ہم کائنات کے واحد سر سبز سیارے پر رہائش پذیر ہیں جہاں کو دل کو موہ لینے والی بے انتہا خوبصورتی اور فطرت کی رنگا رنگی اور زندگی کی بہت سی صورتیں پائی جاتی ہیں، کسی بھی انسانی نسل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ معاشرے اور ثقافتوں میں موسیقی و رقص، مصوری، فلسفہ و سائنس، تعلیم اور ہنر مندی میں کامیابیوں کی طویل انسانی تاریخ کو ضائع کرے یا اسے کسی خطرے سے دوچار کرے"۔
یہ شاعر، ادیب، موسیکار، لکھاری، مفکر و دانشور تمام انسانوں کا مشترکہ سرمایہ ہیں، یہ علاقوں اور تہذیبوں، رنگ و نسل کے قیدی نہیں یہ ہر انسان کے دکھ اور سکھ کے ترجمان ہیں، وہ چاہے داغستان کا عظیم شاعر، ادیب اور لکھاری رسول حمزہ طوف ہو یا یورپ کا فلاسفر کانٹ اور جرمنی کا ہابر ماس اور روس کے ٹالسٹائی اور دوستو فسکی ہوں اس زمین پہ رہنے والے ہر انسان کے محسن و رہبر ہیں اس کائنایت کو تہذیب یافتہ اور جازب نظر بنانے میں ادبی لوگوں کا ہی کمال ہے، یہ آوازوں میں ترنم کشید کرتے ہیں، آہوں اور سسکیوں کو زبان دیتے ہیں یہ شاندار ذوق کے مالک اصل میں سوشل انجینیئرز ہیں، یہ معاشرے کے نبض شناس ہوتے ہیں جو معاشرے کی نوک پلک سنوارتے ہیں اسے درست سمجھ میں چلاتے ہیں ایسے لوگ معاشرے کا ریڈی ایٹر ہیں جو اسے متوازن رکھے ہوئے ہیں، یہ لوگوں کے دلوں کو جوڑتے ہیں، یہ ثقافتوں اور کلچرز کے محافظ اور ضامن ہیں، ہجر و وصل کو زبان دینے والا شاعر اور ادیب بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا مادی ضرورتوں کو پورا کرنے والا انجینیئر اور سائنسدان۔
آئیں عہد کریں کہ ہم اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر اور انجینیئر ہی نہیں بلکہ اچھا لکاری، مصور، ناول نگار، کالم نگار اور فنکار بھی بنائیں گے، تحفے میں موبائل فون اور جیولری نہیں کتاب اور پینٹنگ دیں گے، عید آ رہی ہے اور لوگ اپنے پیاروں کو مہنگے مہنگے تحفے دیں گے اور بچوں کو طرح طرح کے زرق برق لباس لے کر دیں گے، کوشش کریں وہ تحفہ کتاب ہو یا پینٹنگ ہو، اس طرح ہم کتاب پڑھنے کے کلچر اور ادبی سرگرمیں کو فروغ دے سکیں گے، اس معاشرے کو امن کا گوارا بنانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے معاشرے تبھی ترقی کرتے ہیں جب وہاں مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا سامان بھی میسر ہو۔