Zalim Mard
ظالم مرد
ایک بات اکثر کہی جاتی ہے کہ عورت کا اس دنیا میں کوئی گھر نہیں ہوتا۔ پہلے وہ والدین کے گھر میں ہوتی ہے تو اسے پرایا دھن سمجھا جاتا ہے پھر جب شادی کے بعد سسرال آ جاتی ہے تو وہاں وہ بہو ہوتی ہے اور وہ گھر بھی اسکا نہیں ہوتا۔
لیکن کیا کسی نے کبھی سوچا کہ گھر تو مرد کا بھی کوئی نہیں ہوتا۔۔ اور پھرگھرہی کیا۔۔ وہ تو جو کچھ کماتا ہے اس میں سے کتنا وہ اپنی ذات پہ خرچ کر پاتا ہے۔۔ شاید کل کمائی کا دس فیصد بھی نہیں جو اسکی اپنی ذات پہ خرچ ہوتا ہو۔۔ گھر اگر مرد کے نام پہ ہے تو صرف کاغذات میں ہی اس کا نام ہے۔۔ وہ اس "اپنی" چھت کو بھی اپنے بچوں کے لئے مستقبل کا ایک تحفظ سمجھتا ہے۔ وہ ہر وقت بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی فکر میں اپنی ذات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر وقت آمدنی بڑھانے کے بارے سوچتا رہتا ہے۔
ایک مڈل کلاس مرد کی سوچ ہر وقت انہی چیزوں میں اٹکی رہتی ہے کہ گھر کا خرچ کیسے چلنا ہے۔۔ گراسری خریدنی ہے۔۔ دودھ کا بل۔۔ بجلی کے بل۔۔ گیس کے بل۔۔ فون کے بل۔۔ انٹرنیٹ کا بل۔۔ پانی کا بل۔۔ بچوں کی سکول کالج کی فیسیں۔۔ کتابوں اور یونیفامز کے اخراجات۔۔ گاڑی کا پٹرول۔۔ گاڑی کی مرمت کا خرچ۔۔ مہمان نوازی کے اخراجات۔۔ اور دیگر بے شمار چھوٹے چھوٹے اخراجات جو بجٹ بناتے وقت کسی شمار میں نہیں آتے۔۔ لیکن صاحب خانہ کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
وہ اپنے جی میں جنم لینے والی خواہشات کو پیدا ہوتے ہی مار دیتا ہے کہ رہنے دو اس کی بجائے گھر کی فلاں ضرورت پوری کر لینی چاہیئے۔۔ اپنے اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر وہ بس ایک مشین نما انسان بن کر رہ جاتا ہے جو تمام خواہشات اور جذبات سے ماورا ہو۔۔ کبھی اس کا جی چاہے کہ پرانی گاڑی کی جگہ کوئی اچھی اور نئی گاڑی خرید لی جائے تو مستقبل میں آنے والے بہت سارے اخراجات اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں وہ اپنی خواہش کا گلا گھونٹ کر چپ ہو رہتا ہے اور خود کو سمجھا لیتا ہے کہ ابھی وسائل کم ہیں اس لئے اسی گاڑی پہ گزارا چلاؤ۔
کبھی گھر والوں کے ساتھ شاپنگ کرنے نکلے تو اپنے لئے کوئی چیز بھی وہ لسٹ میں شامل نہیں کرواتا۔۔ نہ برانڈڈ کپڑوں کا شوق نہ اعلٰی معیار کے مہنگے جوتوں کا شوقین۔۔ بس واجبی سی قیمت والے کپڑے اور جوتوں پر گزارا چلا کر وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ بیوی بچوں کو کچھ اچھا اور انکی پسند کا خرید دے۔۔ اپنے بارے سوچتے ہی یاد آ جاتا ہے کہ ابھی تین ماہ پہلے تو یہ چیزیں لی تھیں ابھی مزید ضرورت ہی نہیں ہے بس رہنے دو۔
اگر کبھی کوئی برگر یا پیزا کھانے کو جی کیا تو یہ سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیتا ہے کہ اتنے پیسوں میں تو گھر کی ایک دن کی ہانڈی بن جائے گی جو سب کھائیں گے۔۔
اگر گھر اپنا نہیں ہے اور کرایہ پہ رہتے ہیں تو ہر وقت اسی سوچ میں غلطان رہتا ہے کہ کس طرح اپنا ایک چھوٹا سا گھر بن سکے گا جہاں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو کوئی کرایہ لینے نہیں آئے گا۔۔ کب یہ موقع میسر ہوگا جب زمین کے کسی ٹکڑے پر بنے سائبان کو وہ اپنا گھر کہہ سکے گا۔۔
بچے اگر چھوٹے ہیں تو دودھ اور ڈائپرز آج کل کا ایک بڑا خرچہ ہیں۔۔ چند سال قبل مائیں بچوں کے پیشاب کا خود خیال رکھا کرتی تھیں اور کپڑے سے بنے ہوئے واش ایبل پوتڑوں سے ڈائپرز کا کام لیا جاتا تھا۔ رات سوتے وقت بچے کے نیچے پلاسٹک کی شیٹ بچھا لی جاتی تھی تاکہ بستر گیلا نہ ہو۔۔ اب ڈائپرز نے ماؤں کو سہل بنا دیا ہے بس ایک بار لگا دو اور کام ختم۔۔ جب بھر جائے تو تبدیل کر دو۔۔ لیکن اس سہولت کے بدلے گھر کے بجٹ پر جو اضافی دباؤ بڑھ جاتا ہے وہ بھی اس ظالم مرد ہی کے سر پہ آتا ہے۔
مرد واقعی ظالم ہے لیکن وہ یہ ظلم کسی اور پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر اپنی ذات پر کرتا ہے کہ اپنا خیال نہیں رکھتا اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر بیوی بچوں کی ڈیمانڈز پوری کرنے میں جتا رہتا ہے۔۔ اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب بچے باپ سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے۔۔ یہ نکتہ واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ مرد انسان کے روپ میں جانور کا کردار بھی رکھتے ہیں اور اس تحریر میں ان کو موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ دوسری قسم کے مرد جو ذمہ داررویہ رکھتے ہیں انکی بات کی گئی ہے۔
ہمارے ہاں ماں کی عظمت اور مقام کے گن گائے جاتے ہیں اور اب تو عورتوں کا عالمی دن بھی زوروشور سے منایا جاتا ہے لیکن مرد اور باپ کو گھر اور معاشرے میں اس کا جائز مقام دینے کی بات کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ بجائے کسی ایک انتہا پر ہونے کے ہمیں اعتدال پر مبنی رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔