1.  Home/
  2. Blog/
  3. Basharat Hamid/
  4. Jaidad Aur Beti Ki Wirasat

Jaidad Aur Beti Ki Wirasat

جائیداد اور بیٹی کی وراثت

دنیا میں ہر انسان مال و دولت اور جائیداد میں اضافے کی خواہش اپنے دل میں رکھتا ہے اور پھر اپنی ضرورت سے زائد اس جمع کی ہوئی دولت کو بچا بچا کر رکھنے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ نہ صرف اسے بچانے کی فکر میں رہتا ہے، بلکہ اس میں مزید اضافہ کرنے کی پلاننگ بھی کرتا رہتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں جوائنٹ فیملی سسٹم رائج ہے جہاں اس کے بہت سارے فوائد ہیں وہیں یہ کئی لحاظ سے منفی پہلو بھی رکھتا ہے۔ عمومی طور پر جوائنٹ فیملی میں سب بہن بھائی اپنے والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بھائیوں کی شادیاں ہو جانے کے بعد بھی اسی ایک گھر میں سب کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں پرانی سوچ والے لوگ اپنی خاندانی روایات کو بہت مضبوطی سے تھام کر رکھتے ہیں۔ جس چھوٹے گھر میں والدین نے ساری عمر گزاری ہوتی ہے اور عام طور پر وہی ایک جائیداد ہوتی ہے۔ جس میں سے سب کو حصہ ملنا ہوتا ہے لہٰذا اس کو بیچنے اور تقسیم کرنے کا تصور بھی والدین کی زندگی میں ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ اور والدین کی وفات کے بعد بیٹے اس پر قابض ہو جاتے ہیں۔

بہن اور بیٹی کو خود ساختہ جہیز کی رسم پوری کرنے کے لئے دیا جانے والا سامان اسکی وراثت میں ڈال کر اس کو باقی ماندہ جائیداد سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ جیسے بیٹے کی ضروریات ہیں۔ اسی طرح بیٹی کی بھی ضروریات ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں چاہے وراثتی مال کا حصہ کم ہو چاہے زیادہ اسے ہر حال میں تقسیم کرکے حق داروں تک پہنچایا جائے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے وراثت کے قانون کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ احادیث میں بھی وراثت کی تقسیم کے احکام بہت تفصیل سے موجود ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دنیا دار گھرانے تو ایک طرف رہے بہت زیادہ دیندار گھرانے بھی وراثت کی تقسیم کرنا اپنی روایات کے خلاف سمجھتے ہیں اور اگر تقسیم کر بھی دیں تو بیٹیوں کو حیلوں بہانوں سے مقرر شدہ حصہ دینے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان پر دباؤ ڈال کر بیٹوں کے حق میں دستبردار کروا لیا جاتا ہے اور اگر کوئی بیٹی اپنا حصہ لینے پر اصرار کرے تو اس کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ وہ حق ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے بحیثیت مسلمان یہ حق خوش دلی سے ادا کرنا چاہیئے، لیکن اس معاملے میں ہماری دینداری صرف اور صرف اپنے مفاد کے گرد گھومنے لگتی ہے اور بہنوں بیٹیوں کو وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو ہم ہوس اور حرص کے شکار ہو کر اپنی عاقبت اور انجام کو بھول جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہماری ساٹھ ستر سال کی زندگی ایک دن ختم ہوگی تو یہ ناحق جمع کیا ہوا مال و دولت کس کام آئے گا اور روز قیامت اللہ کے سامنے اس حق تلفی کا کیا عذر پیش کریں گے۔

ایک ہی والدین کے ہاں جنم لینے والے ایک ہی چھت کے نیچے پلنے بڑھنے والے بہن بھائی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر الگ ضرور ہو جاتے ہیں اگر اس میں کوئی خاندان استثناء رکھتا ہو تو انکی آنے والی نسلیں یہ کام کرکے ہی دم لیتی ہیں۔ یہاں کوئی ہمیشہ نہ عروج پر رہتا ہے اور نہ ہی زوال میں۔ زندگی میں ہر لمحہ تغیر و تبدل چلتا رہتا ہے۔

اس طرح گھرانوں اور خاندانوں کا الگ ہونا اس زندگی کا حصہ ہے اور یہ ہو کر رہتا ہے۔ بہتر یہ ہوتا ہے کہ یہ علیحدگی افہام و تفہیم اور خوش اسلوبی سے ہوتاکہ بعد میں بھی آپس کے تعلقات برقرار رہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی مادہ پرستی اور پیسے کی ہوس ہمیں ایک دوسرے کی حق تلفی پر اکساتی ہے اور ہم میں سے اکثر اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جو بھی دوسرے کی حق تلفی کرے گا اس کی جوابدہی اسے ہی کرنی پڑے گی چاہے یہ حق تلفی والدین کریں یا بہن بھائی۔

Check Also

Terha Laga Hai Qat, Qalam e Sarnavisht Ko

By Nasir Abbas Nayyar