Mughalitistan Aur Imran Khan, Quaid e Azam Ke Naujawan (10)
مغالطستان اور عمران خان: قائد اعظم کے نوجوان (10)
دوستو! پچھلی قسط میں ہم قائد اعظم کی تقاریر، جو انہوں نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کیں، ان کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ہم مختلف حصے قائد اعظم کی تقاریر کے آپ کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ وقت کی قلت کے باعث گفتگو ادھوری رہ گئی۔ لہذا، آج مزید اس حوالے سے گفتگو کرتے ہیں۔ ہم قائد اعظم کی 24 مارچ، 1948ء کی تقریر کا مطالعہ کر رہے تھے۔ لہذا، آج کی گفتگو کا آغاز اسی تقریر کے بقیہ حصے شامل کرکے کرتے ہیں، جوہم پچھلے مضمون میں شامل کرنے سے رہ گئے۔
قائد اعظم نوجوانوں سے بولے:
"آپ میں سے جو لوگ (عملی) زندگی میں داخل ہونے والے ہیں، اُن لوگوں سے (جو آپ کو گمراہ کر رہے ہیں) ہوشیار رہیں۔ آپ میں سے جن لوگوں نے ابھی کچھ وقت کے لیے اپنی پڑھائی جاری رکھنی ہے، وہ کسی سیاسی جماعت یا خود غرض سیاست دان کے ہاتھوں اپنا استحصال نہ ہونے دیں"۔ (ص113)
مزید بولے:
"جیسا کہ میں نے کچھ دن پہلے (21 مارچ کی تقریرمیں) کہا، آپ کا بنیادی کام یہ ہے: اپنے آپ کے ساتھ انصاف کرنا، اپنے والدین کے ساتھ انصاف کرنا، اور درحقیقت ریاست کے ساتھ انصاف کرنا، اپنی توجہ صرف اور صرف اپنی تعلیم پر مرکوز کرنا۔ صرف اسی صورت میں آپ اپنے آپ کو زندگی کی جنگ کے لیے لیس کرسکتے ہیں جو آپ کے سامنے ہے۔ صرف اسی صورت میں آپ اپنی ریاست کے لیے ایک اثاثہ اور طاقت کا ذریعہ اور فخر بنیں گے۔ صرف اسی صورت میں آپ اس (ریاست) کو درپیش عظیم سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے میں اس کی مدد کرسکتے ہیں اور اسے دنیا کی سب سے ترقی پسند اور مضبوط ترین قوموں میں سے اپنے منزل مقصود تک پہنچنے کے قابل بنا سکتے ہیں"۔ (ص113)
پھر انہوں نے کچھ نکات پیش کیے نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے، انہوں نے کہا:
"میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو چند نکات بتانا چاہوں گا جن کے بارے میں آپ کو ہوشیار اور باخبر رہنا چاہیے۔ سب سے پہلے، ہم اپنے درمیان ففتھ کالمنسٹز(دشمنوں کے جاسوس) سے ہوشیار رہیں۔ دوم، خود غرض لوگوں سے بچیں اور ان کو ختم کریں جو صرف آپ کا استحصال کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ فائدے میں رہیں۔ تیسری بات یہ کہ یہ فیصلہ کرنا سیکھیں کہ ریاست کے سچے اور ایماندار اور لاغرض لوگ کون ہیں جو دل و جان سے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں"۔
اسی طرح انہوں نے 28 مارچ، 1948ء کی تقریر میں بھی یہی باتیں دہرائیں۔ انہوں نے کہا:
"سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو شرارتی پروپیگنڈہ نگاروں اور خود غرض مشتعل افراد کے پیادے نہ بننے دیں جو (آپ کا) استحصال کرنے کے لیے کوشاں ہیں"۔ (ص129)
یہ ساری تقاریر انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں کیں۔ لیکن یہ پیغام انہوں نے محض مشرقی پاکستان کے لوگوں تک محدود نہ رکھا۔ 12 اپریل، 1948ء کو انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے اسی قسم کا پیغام دیا۔ بولے:
"(قیام پاکستان کے بعد)آپ کی ذمے داریاں اور سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر کو بھی بدلنا چاہیے۔ اب آپ کے فرائض یہ ہیں: نظم و ضبط(پیدا کرنا)، کردار(سازی پر توجہ دینا)، آغاز(کسی مثبت کام کا)، اور ٹھوس علمی پس منظر کا صحیح طرح احساس پیدا کرنا، اپنے آپ کو پورے دل سے اپنی پڑھائی کے لیے وقف کرنا"۔ (ص134)
پھر انہوں نے پشاور کے طلباء کو بھی متنبہ کیا، کہنے لگے:
"میں آپ کو متنبہ کردوں کہ اپنے اعمال کا تعین غلط معلومات یا نعروں اور توجہ حاصل کرنے والے لفظوں سے نہ کریں۔ انہیں (یعنی جعلی معلومات اور چسکے دار نعروں) کو دل میں جگہ نہ بنانے دیں اور طوطے کی طرح انہیں نہ دہرائیں"۔ (ص134)
پھر انہوں نے اسلامیہ کالج، پشاور کے طلباء سے کہا کہ وہ بھر پور فائدہ اٹھائیں اپنے اس ادارے کا۔ کیونکہ تب ہی نوجوان اس قابل بنیں گے کہ وہ اپنی اگلی نسل کی رہنمائی کرسکیں۔
تو دوستو! یہ تھی قائد کی ذہنیت نوجوانوں کے حوالے سے۔ انہوں نے مسلسل تحقیق اور پڑھائی کو توجہ دینے کے لیے کہا۔ انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ کسی سیاسی لیڈر کے ہاتھوں غلط استعمال نہ ہوں۔ ملک دشمن عناصر کو جانیں۔ اور اپنے آپ کو پہلے اس قابل بنائیں کہ وہ آگے زندگی کی جنگوں میں شامل ہوسکیں۔
لیکن کون آج نوجوانوں کے ذہنوں کو اتنا آلود کر چکا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں سے بھی ایک زانی بندے کے لیے لڑ جاتے ہیں (جس کی ایک ناجائز اولا ہے)، جو انٹرنیٹ پر ریاست مخالف ٹرینڈز چلا رہے ہیں اور پڑھائی اور مطالعے کے بجائے سوشل میڈیا پوسٹس کو ترجیح دے رہے ہیں؟ کون آج ایک خود غرض سیاسی رہنما کے ہاتھوں ذہنی طور یرغمال ہیں؟ کون آج نعروں اور توجہ حاصل کرنے والے لفظوں سے متاثر ہیں؟ کون طوطے کی طرح آج اپنے سیاسی رہنما کی بات بغیر تصدیق اور تحقیق دہرا رہے ہیں؟ آج کس جماعت کے بہت سارے نوجوان قید خانے میں ہیں، کیونکہ انہوں نے عسکری ٹاور، جناح ہاؤس، ریڈیو پاکستان اور دیگر ملکی املا ک کو نقصان پہنچایا؟
جواب آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ افسوس صد افسوس! قائد اعظم نے ہمیں متنبہ کیا کہ یہ ساری حرکتیں ملک دشمن ہم سے کرائیں گے اور ہمیں ان کے جال سے بچنے کے لیے کہا، لیکن ہم نے۔۔
خیر، ہم وہ جاہل قوم ہیں، جو عورت کے کپڑوں پر "حلوہ" لکھا ہو تو اسے قرآنی حروف میں سے ایک سمجھ لیتے ہیں (استغفر اللہ!)، ہم اس معصوم کو مارنے کے در پر ہوتے ہیں، ہم کئی معصوم لوگوں پر توہین مذہب اور توہین رسالت کے فتوے بھی صادر کردیتے ہیں، لیکن جو خبیث "امر بالمعوف" جیسے مقدس فلسفے کو استعمال کرتا ہے ایک جعلی بیانیہ بنانے کے لیے، ساتھ ساتھ اسی جگہ موسیقی بھی چل رہی ہوتی ہے، نوجوان رقص بھی کرتے ہیں، تب کسی کی مذہبی غیرت نہیں جاگتی۔ جب کسی کے کان میں کہا جاتا ہے کہ تقریر کو "اسلامی ٹچ" دیں، تب کسی کی مذہبی غیرت نہیں جاگتی۔ جب مدینہ میں مسجد نبوی ﷺکے احاطے میں نعرے بازی کی جاتی ہے، تب کسی کی مذہبی غیرت نہیں جاگتی۔ جب جناح ہاؤس کے ساتھ والی مسجد شہید کردی جاتی ہے (اور یاد رہے ہر مسجد میں قرآن پاک کے نسخے اور احادیث کی کتب موجود ہوتی ہیں، جو مسجد کے ساتھ شہید ہوتی ہیں)، تب کسی کو توہین مذہب یاد نہ آیا۔ جب ریڈیو پاکستان، پشاور کے دفتر کو آگ لگائی گئی، جہاں یاد رہے قرآن پاک کی تلاوت کی نشریات 24 گھنٹے چلتی ہیں، جہاں کسی نہ کسی جگہ ضرور قرآن کے نسخے موجود ہونگے جو آگ کی ضد میں شہید ہوئے ہونگے، تب کسی کو توہین مذہب یاد نہ آیا۔
میں نے ان سلسلہ وار مضامین کی سب سے پہلی قسط میں انجیل کی چند آیات کا حوالہ دیا تھا۔ اس وقت میں نے محض آیات کی تعلیم کو اپنے لفظوں میں آپ کے سامنے رکھا۔ لیکن اب میں وہ آیات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پڑھیں کیا لکھا ہے ان آیات میں۔ انجیل کی کتاب متی کی ساتویں کتاب کی یہ چند آیات ہیں۔ غور سے ملاحظہ فرمائے گا:
"جھوٹے پیغمبروں کے بارے میں ہوشیار رہو۔ وہ بھیڑوں کی طرح تمہارے پاس آئیں گے (یعنی وہ تمہیں گائے، بکری اور بھینس کی طرح معصوم معلوم ہونگے)۔ لیکن حقیقت میں وہ بھیڑیے کی طرح خطرناک ہونگے۔ تم ان کے کاموں کو دیکھ کر ان کو پہچان لوگے"۔ (آیت 15 تا16)
بعد میں فرمایا گیا ہے کہ اچھے لوگ اچھے درختوں کی طرح اچھے پھل (یعنی اعمال) دیتے ہیں۔ جبکہ برے لوگ زہریلے درخت کی طرح زہریلے نتائج دیتے ہیں۔ اور پھر کہا گیا کہ "اس لیے(آپ) جھوٹی تعلیم دینے والوں کو ان کے پھلوں سے پہچان لوگے"۔ (آیت 20)
میں نے قائد اعظم کی تقاریر کے کچھ حصے آپ کی خدمت میں پیش کیے، اور اب میں قائد اعظم کے ایک پھل کا ذکر کروں گا۔ ویسے تو انہوں نے بہت سی خدمات انجام دیں، لیکن میں فی الحال ایک چھوٹی سی مثال کے ذریعے ان کے محض ایک پھل کا ذکر کروں گا۔
1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو مسلم حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اگر اس سال مسلم لیگ اچھی خاصی نشستیں حاصل نہ کرتی تو پاکستان وجود میں نہ آتا۔ ان انتخابات میں اسلامیہ کالج لاہور کے طلبا کا بہت بڑا کردار تھا۔ ایم ایس ایف (مسلم سٹوڈنٹز فیڈیریشن) نے 1946ء نے انتخابات میں بہت ہی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اور لاہور کے اسلامیہ کالج کے اندر ایم ایس ایف بہت زیادہ فعال تھی۔ لہذا انتخابات کے بعد قائد اعظم نے اسلامیہ کالج لاہور کے ایم ایس ایف کے طلبا میں انعامات تقسیم کیے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ انعام کس طرح دیا گیا۔ سب کو ایک بجٹ دیا گیا۔ اور پھر اس بجٹ میں کتابوں کا انتخاب کرنے کے لیے کہا گیا۔ اب ہم جس طالب علم کا ذکر کریں گے اس نے اپنے انعام کے پیسے سے تین کتب خریدیں۔ ان میں سے ایک کتاب لغت تھی جو وہ شخص اپنی زندگی میں آگے کئی سالوں تک استعمال کرتا رہا۔
قائد نے اس اہم موقع پر طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب "مجاہد پاکستان" سے "معمار پاکستان" بنیں۔ اور پھر قائد نے نوجوانوں سے گزارش کی کہ وہ صنعت اور تجارت کے میدان پر تو جہ دیں، کیونکہ ان دونوں میدان میں مسلمان ہندوؤں سے پیچھے تھے اور اب بھی ہیں بدقسمتی سے۔ جس نوجوان کا ہم نے ذکر کیا کچھ دیر پہلے وہ بھی ظاہر ہے اس تقریب میں تھا۔ لہذا اگلے دن اس نے قائد اعظم سے پوچھا: "جناب! طلباء تجارت اور صنعت کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ آپ پیسے والے زمینداروں سے ان شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کہیں"۔ قائد نے جواب دیا: "میرے بچے! نوجوانوں (کی زندگی) میں تبدیلی یعنی ان کی پڑھائی میں تبدیلی"۔
قائد کا کہنا تھا کہ آپ اپنی تعلیم کا رخ تبدیل کریں۔ روایتی شعبوں کے بجائے جدید شعبوں کو ترجیح دیں، ان شعبوں میں تعلیم حاصل کریں۔ صنعت اور تجارت وہ شعبے تھے جن میں مسلمان پیچھے تھے، لہذا انہوں نے طلباء سے کہا کہ وہ ان میدانوں کو سر کریں۔ قائد نے جس نوجوان کو یہ کہا وہ بولا کہ "ان الفاظ نے میرے کیرئیر کا رخ تبدیل کردیا۔ قانون میں اپنا کیرئیر بنانے کے بجائے، جو میرے والد کا انتخاب تھا، میں نے بارہ دیگر ساتھی طلباء کے ساتھ ہیلی کالج اوف کامرس میں داخلہ کا فیصلہ کیا۔۔ میرے لیے وہ دن یعنی 24 مارچ 1946ء ایک اہم موڑ ثابت ہوا"۔ (ص6 تا 7، بیٹوین ڈریمز اینڈ رئیلیٹیز، سرتاج عزیز، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی، 2009ء)
یعنی ایک طالب علم نہیں، تیرہ طالب علم قائد کے کہنے سے متاثر ہوئے۔ جس شخص کا ہم نے ذکر کیا وہ سرتاج عزیز تھا۔ جی ہاں! بعد ازاں سرتاج عزیز پاکستانی بیوروکریسی کے بہت ہی اہم افسر ثابت ہوئے۔ انہوں نے بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔ وہ عالمی تنظیموں کا بھی حصہ رہے جیسے کہ ایف اے او(فوڈ اینڈ ایگریکلچر اورگنئازیشن)، پاکستان کی پلیننگ کمیشن کا بھی اہم حصہ رہے۔ جب پاکستان نے 60 کی دہائی میں اپنا پہلا اور آخری کامیاب پانچ سالہ منصوبہ مکمل کیا(بلکہ تجاوز کیا، اور یہ وہ منصوبہ تھا جس کو جنوبی کوریا نے نقل کیا)، تب سرتاج عزیز اس ادارے میں اہم امور سنبھالے ہوئے تھے۔ بعد ازاں 80 اور 90 کی دہائی میں معیشت کے میدان میں سرتاج عزیز نے اہم خدمات انجام دیں۔ بھٹو دور کی تباہ کن قومیا لینے کی پالیسی نے پاکستانی صنعتوں کا ستیاناس کردیا تھا۔ سرتاج عزیز جب 90 کی دہائی میں نواز شریف کے وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے نجکاری کے ذریعے ریاست کو نقصان دینے والے اداروں کو کامیاب نجی اداروں میں تبدیل کیا۔ پھر 2013ء کے بعد وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھالا۔
ایک طرف قائد کی نصیحتیں ہیں ہمارے سامنے، ان کے ایک پھل کا ذکر میں کرچکا ہوں۔ انہوں نے نوجوانوں کو کس جانب گامزن کیا، اس کی ایک چھوٹی سی مثال سرتاج عزیز کے ذریعے ہمیں ملتی ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے نوجوانوں کا حال دیکھ لیجیے۔ عمران خان کی تقاریر اور ان کی حرکتیں دیکھ لیجیے۔
2014ء کے دھرنے کے وقت جب پی ٹی وی اور جیو کے دفتر کو نقصان پہنچایا گیا، تب عمران خان اور موجودہ صدر پاکستان عارف علوی کی آڈیو لیک سامنے آئی۔ اس آڈیو میں کہیں بھی عمران خان پشیمانی کا ثبوت نہیں دیتے۔ بلکہ کہتے ہیں اچھا ہے، دباؤ بڑھنا چاہیے۔ 2022ء کے مہینے مئی میں دارالخلافہ کے درخت جلائے گئے، ایک سال پہلے زمان پارک کے باہر نوجوان پولیس پر پیڑول بم کے گولے برسا رہے تھے تاکہ ان کا محبو ب لیڈر گرفتار نہ ہو۔ انٹرنیٹ پر کتنا جھوٹ کا سیلاب چھوڑا جارہا ہے، کتنی گندی گندی گالیاں عمران خان کے مخالفین کو دی جارہی ہیں، کتنے جعلی ٹرینڈز چل رہے ہیں، کتنی جعلی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔۔
ڈاکٹر فرحان ورک کے انٹرویوز ملاحظہ کیجیے جو انہوں نے سلیم صافی، منصور علی خان اور دیگر صحافیوں کو دئے۔ یہ وہی ڈاکٹر فرحان ورک ہیں جو ایک وقت میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا اہم حصہ تھے۔ ان کی زبانی سن لیجیے کہ کیسے پی ٹی آئی کی زہریلی سیاست اور دھرنوں کی وجہ سے ان کی تعلیم تباہ ہوئی۔ اور وہ بھی طب کے میدان کی تعلیم۔ پاکستان میں کتنے بچے ترستے ہونگے ڈاکٹر بننے کے لیے۔ لیکن ہر کسی کے پاس نہ پیسہ ہوتا ہےکہ وہ یونیورسٹی تک پہنچے، کئی داخلہ نہیں لے پاتے۔ لیکن یہاں ایک نوجوان کی تعلیمی زندگی منفی سیاست کی نذر ہوئی۔ آج وہ پشیمان ہے۔ پی ٹی آئی کی اصلیت ظاہر کر رہے ہیں اور دیگر نوجوانوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے پیچھے اپنی زندگی اور تعلیم اور کاروبار وغیرہ کو تباہ نہ کریں۔
لیکن ہر کوئی ڈاکٹر فرحان ورک نہیں۔ کئی آج بھی نہیں سدھرے۔ پڑھائی بھی تباہ، مستقبل بھی۔ ملکی املاک کو نقصان ہوا وہ الگ۔ دھرنے اور احتجاج کی منفی سیاست ملک کی معیشت کا کیا حال کرتی ہے وہ ہر کوئی جانتا ہے۔ ایک دن بھی شاہراہیں بند ہوں، کئی غریب اپنی روزی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
تو ایک طرف سرتاج عزیز جیسے لوگ تھے جن کے قائد نے انہیں کہاں پہنچایا، آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے نوجوان ہیں، دیکھیں عمران خان نے انہیں کیا بنا دیا اور کہاں پہنچایا۔ کس کا پھل زہریلا ہے اور کس کا میٹھا، روز روشن کی طرح عیاں ہے بات۔
دوستو! وقت کی قلت کے باعث مزید گفتگو اگلی قسط میں ہوگی۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے۔ اور ہاں! اگر یہ اقساط آپ کو متاثر کر رہی ہیں تو اپنے دوستوں اور عزیزوں میں انہیں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ حافظ۔