Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Badar Habib Sipra
  4. Mafahmat Ke Pesh e Nazar Zameer Faroshi

Mafahmat Ke Pesh e Nazar Zameer Faroshi

مفاہمت کے پیش نظر ضمیر فروشی

انسانی روح کی ایک آنکھ ضمیر ہے، جس کے سبب اس پر صحیح غلط کا فرق عیاں ہوتا ہے۔ باضمیر شخص کی پہچان اس کے اخلاقی اقدار، انسانیت کے معیار، دوسروں کے احترام اور اُس کے فیصلوں میں اصول پسندی کی بنا پر کی جا سکتی ہے۔ ایک باضمیر انسان عموماً دوسروں کے لئے فیصلے کرتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے، اور ان کی سوچ و بچار اور تردد و تفکر کا احترام کرتا ہے۔ ضمیر انسان کو اپنے اعمال کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان دوسروں کے جذبات اور خواہشات کو سمجھنے کے قابل بنتا ہے۔

ضمیر فروشی جسم فروشی سے بھی ایک گھٹیا اور نیچ دھندہ ہے۔ ضمیر فروش دوسروں کے حقوق کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان کی سوچ محدود ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے اعمال کے اثرات کو دیکھتے وقت آنکھ بند کر لیتے ہیں۔ وہ انصاف کی بجائے جانبداری کو روا رکھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ نا انصافی سے کام لیتے ہیں۔

آج کل یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ایک جماعت کو برسر اقتدار لانے کی عددی گنتی کے لیے مخالف جماعت کے لوگوں کو لولی پاپ دکھا کر اپنی وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر لوگ تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ان کے نرغے میں آ کر اپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگا رہے ہیں۔ چند کوڑیوں کی عوض یا محض دباؤ کے پیش نظر وہ اپنے ضمیر کا سودا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ضمیر کا سودا کرکے عوام کی توقعات کے برعکس اپنی وفاداریاں بدل رہے ہیں۔ ضمیر کے یہ سوداگر عوام کو آئندہ اپنا چہرہ کیسے دکھا پائیں گے؟

گزشتہ روز جب یہ خبر موصول ہوئی کہ ایک موصوف جن کا نام لینے سے میں قاصر ہوں، وہ اپنی جماعت کو چھوڑ کر اور اپنی عوام سے کیے ہوئے وعدے کے عین برعکس مخالف کی گود میں جا بیٹھے۔ اِس خبر کے موصول ہوتے ہی میرے کان سرخ ہو گئے، میں حواس باختہ ہوگیا تھا کہ اتنے بڑے خاندان کا یہ سپوت بھی ضمیر فروشی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ محض چند کوڑیوں کی خاطر یا رتی بھر دباؤ کے پیش نظر اپنے ضمیر کو فروخت کر دیا، عوام کے مینڈیٹ کو بیچ دیا۔

اس عمل کی وجہ معلوم کرنے کے لیے جب تھوڑی سی دوڑ دُھوپ کی۔ اپنے ذہن پر تھوڑا سا زور دیا۔ جب عقل خرچ کی تو کچھ یاد آیا، ایک چھوٹا سا واقعہ، جو شاید اس عمل کی دلیل ثابت ہو سکتا ہے۔ چند ماہ قبل جب میرے دو بڑے بھائیوں کی شادی تھی۔ مہمانوں کی آمدورفت جاری تھی۔ ہم مہمان نوازی کے فریضے کو سر انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ مہندی والی رات موصوف کی ہمارے ہاں آمد ہوئی۔ والد محترم، دونوں بڑے بھائی کے ہمراہ ہم سب وہاں موجود تھے۔ صاحب نے سب سے پہلے شادی کی مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ولیمے میں شرکت کرنے سے معزرت کی گئی۔ سیاسی پابندیوں کی وجہ سے وہ دن دہاڑے کسی بھی مجمعے میں تشریف لانے سے قاصر تھے۔ شاید گرفتاری کا خوف تھا۔ اسی کے ساتھ اسی دوران گفت و شنید میں بات تھوڑی آگے نکل گئی اور سیاست پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ موصوف نے واضح کیا کہ ہم ابھی انڈر گراؤنڈ ہیں اور مائی باپ کے اشارے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جس طرف چھڑی ہوگی ہمارا اونٹ اسی کروٹ بیٹھے گا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب 9 مئی کا واقعہ ہو چکا تھا۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت اس کی مجرم ٹھہری۔ جس کے بعد اس جماعت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کے ستون گرنے لگے۔ اس جماعت کے اکثر رہنما اپنی پاک دامنی کو ثابت کرنے کے لئے اس جماعت سے تو کیا سیاست سے ہی لا تعلقی کا اعلان کیے جا رہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔

موصوف کی ٹانگیں اُن دنوں بھی لڑکھڑا رہی تھیں، مگر پھر بھی وہ اُن لرزتی ٹانگوں پر ثابت قدم رہے۔ شاید اُن کو اور اُن کے مائی باپ کو یقین تھا کہ اس جماعت مخصوصہ کے بیانیے کے خلاف اس علاقے میں کامیابی حاصل کرنا نا ممکن تھا۔ اس طرح حالات کو بھانپتے ہوئے ایک چال چلی، دوران کمپین اسی مخصوص جماعت کے بیانیے کو گلے لگایا، اُس سے ڈھارس بندھی، اُس کا ڈھول خوب بجایا، عوام کو الو بنایا اور اُن کو یقین دلایا۔ یقین دلانے کے لیے کلمہ طیبہ کا سہارا لیا گیا، یہ بیان اُن کا زبان زد عام رہا، "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، یا اللہ تُو مجھے طاقت دے کہ میں اپنی بات پر قائم رہوں، میں اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑا رہوں، عوام کی امیدوں پر پورا اُتروں اور اُن کے ووٹوں کا صحیح استعمال کروں"۔

آج جب وعدہ وفا کرنے کا وقت آیا تو انہوں نے اپنا وعدہ وفا نہ کیا۔ ان کا اونٹ چھڑی کی سمت میں جا بیٹھا ہے۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

یہ فقط ایک شخص کی بات نہیں۔ پنجاب تو کیا پورے پاکستان میں اس جرم کے کار گزار موجود ہیں۔ یہ صرف موجودہ وقت کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی اس چھوٹی سی سیاسی زندگی میں بیسیوں دفعہ یہ عمل دہرایا گیا ہے۔ ہر دور میں گھوڑوں کی تجارت ہوتی رہی ہے۔ جس کو جس قدر موقع ملا اس نے اپنا ہر داؤ پیچ ازمایا ہے۔ مگر اب کی بار عوام کا ردعمل ذرا ہٹ کر ہے۔ آج ان کو اسی وجہ سے برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ ان کے عوام احتجاج کر رہے ہیں۔ آج انہیں لوٹے کا لقب دیا گیا ہے۔ ان پر ضمیر فروشی کا الزام آئد ہے۔ عوام کے درمیان ان کے لیے نفرت کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ شاید جو کل اس بیانیے کی وجہ سے محبوب تھے، آج وہ عہد شکنی سے مبغوض ہو چکے ہیں اور شاید ضمیر فروشی کی یہ سزا ہونی بھی چایئے۔

Check Also

Garam Pani Ki Jhooti Kahani

By Mojahid Mirza