Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Badar Habib Sipra
  4. Etemaad Insaniyat Ka Aik Haseen Pehlu

Etemaad Insaniyat Ka Aik Haseen Pehlu

اعتماد انسانیت کا ایک حسین پہلو

نیلی چھتری والے کے بھید نرالے اور ہم ہی ہیں جو ان سے نا آ شنا ٹھہرے۔ ظنِ غالب یہ ہے معاشرے کی تنگدستی اور سفاکشی نے ہمیں اس قدر لاچار اور مفلوج بنا کر تاریکی کے گھپ اندھیرے میں اتار دیا کہ ہم روشنی کی ایک کرن دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ہم شاید منفی سوچ میں اس قدر پھنس گئے ہیں کہ اس سمندر کے ساحل پر آنا ہی نہیں چاہتے۔

اگر ہم کسی طرح یہ نرالے بھید سمجھ گئے تو بات ہی کچھ الگ ہے۔ ذرا غور و فکر کریں، قدرت کے ان نرالے اور حسین و جمیل پہلوؤں کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو ہم پر عیاں ہوگا کہ ہماری زندگی کے کئی پہلو انتہائی مسرت انگیز ہیں۔ ہماری زندگی کے خوبصورت اور دلفریب پہلو اعتماد، اعتبار، بھروسہ اور یقین ہیں۔ اعتماد کی کئی صورتیں ہیں۔ جن میں سے چند ایک سرفرست ہیں، خدا پر اعتماد، خود اعتمادی اور دوسرے انسانوں پر اعتماد۔

خدا پر بھروسہ رکھنے سے مراد ہے کہ خدا کی قدرت اور رحمت پر ہمیں پورا اعتماد ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا واحد مطلق ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ وہ ہر فعل پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ اعتماد انسان کی روحانیت اور اخلاقیت کو بہتر بناتا ہے۔

خود اعتمادی سے مراد ہے اپنی قابلیتوں، صلاحیتوں اور کامیابیوں پر اعتماد کرنا۔ اپنی طاقت اور کمزوری کو جانتے ہوئے اپنی قدرتی صلاحیت پر اعتماد کرنا۔ اپنی محنت کے سفر میں پیش آنے والی ناکامیوں کو بجائے ہار، موقع سمجھ کر آگے بڑھنا۔

دوسروں پر اعتماد کا سلسلہ بچپن سے ہی شروع ہوتا ہے۔ جب ایک چھوٹا سا بچہ ہوا میں اچھالا جاتا ہے تو وہ ڈر کو تاب نا لاتے ہوئے محض اعتماد سے معزور ہو کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اور تو اور کامیاب ازدواجی زندگی بھی اعتماد پر ہی موقوف ہے۔ شوہر کا بیوی پر اعتماد اور بیوی کا شوہر پر۔ اگر اعتماد میں ذرا بھر لغزش آئی تو رشتہ ڈگمگانے لگتا ہے۔ شکوک و شبہات بات کو طلاق تک پہنچا دیتے ہیں۔

ایک شخص کا دوسرے شخص پر اعتماد یقیناً ناقابل فراموش عمل ہے۔ جو انسانی زندگی کو خوبصورت بناتا ہے اور شاید اس کے بغیر زندگی دو بھر ہو۔ روزمرہ کی زندگی میں سڑک پر چلتی گاڑیاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ دو گاڑیاں جب ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے ہوں تو ایک ڈرائیور کا دوسرے ڈرائیور پر اعتماد ہی اس کراسنگ کو ممکن بناتا ہے۔ ایک ہی قطار میں چلنے والی گاڑیوں کی تیز رفتاری بھی اسی اعتماد کی مرہون منت ہے کہ اگے والا کوئی فضول حرکت مثلاً اچانک گاڑی کو روک دینا، موڑ دینا، ایسے عمل سے باز رہے گا۔

یہ عمل کس قدر خوبصورت ہے کہ ایک آدمی جب حجام پر حجامت کیلئے جاتا ہے تو اسے اپنے حجام بھائی پر پورا اعتماد ہوتا ہے۔ وگرنہ کوئی احمق ہی ہو جو کسی اجنبی کو اپنی گردن پر استرا رکھنے کی اجازت دے۔ جس کی ایک غلط دھار سے پل بھر میں وہ اِس جہاں سے اُس جہاں کا ہو رہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے کے گال پر ہاتھ لگانا ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے جبکہ حجام محض اعتماد کی بنیاد پر اس سے مستثنی ہیں۔

ایک مریض کا اپنے معالج پر اعتماد قابل ستائش ہے۔ وہ شاید خدا کے بعد اپنے معالج پر ہی اعتماد کرتا ہے، جو اس کی جان بچا سکے۔ کہتے ہیں سویا اور مویا برابر ہیں۔ اور نشہ تو جیسے موت کی ہی ایک حالت ہے۔ عمل جراحت سے پہلے موت کو نشہ کی صورت میں دیکھ کر واپس آنا اسی اعتماد کے مرہون منت ہے۔ مریض کو معلوم نہیں کہ وہ کیا کھا رہا ہے؟ وہ جو کھا رہا ہے اس کا مرکب کیا ہے؟ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ مگر وہ معالج کی نصیحت پر عمل کیے جا رہا ہے اور شفا کی امید باندھے اعتماد کے ساتھ شفایاب ہوجاتا ہے۔

جب کسی بھی شخص کو خدا پر سے، اپنے آپ سے یا دوسروں سے اعتماد نہ رہے تو اس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اس کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ رشتوں میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ سماجی تعلقات میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ بے یقینی اور بے اعتمادی شخصی اور قومی تنزلی کا موجب بن سکتی ہیں۔ یہ ان کی راہ میں ناسر ہونے والی روکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ خوابوں کی تعبیر اور منصوبوں کی تکمیل شاید ان کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

محسن پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اگست 1947 کو کراچی پریس کلب میں اعتماد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: "ایک دوسرے پر اعتماد کرو، ایک دوسرے سے تعاون کرو، پاکستان کو صحیح معنوں میں خوشحال، متحد اور طاقتور بنانے کیلئے اگر ضرورت پڑے تو دن رات کام کرو"۔

انسان کا دوسرے انسان پر اعتماد قابل تحسین عمل ہے۔ اس اعتباد کی خوشبو سے انسانیت کا گلشن مہک اٹھتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسانی رشتوں کو مضبوط بناتا ہے۔ اس کی بنیاد پر معاشرے میں تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ بنیادی اخلاقیات کی روشنی میں انسانیت کی ترقی ہوتی ہے اور اتحاد بڑھتا ہے۔ اعتماد کا انسانی دل میں بہت اہم کردار ہے اور اس کے غیر موثر ہونے کی صورت میں معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے دوسروں پر اعتماد کرنے کی اہمیت کی قدر کی جائے اور انسانیت کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لئے اس کو فروغ دیا جائے۔

Check Also

Kayenaat Mein Taqreeban Do Hazaar Arab Kehkashan Hai

By Tehsin Ullah Khan