Senate Intikhabat Mein Tarmeem Ki Tabdeeli
سینیٹ انتخابات میں ترمیم کی تبدیلی
پاکستان میں اگلے ماہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس وقت سینیٹ انتخابات موضوع سخن ہےجیسے جیسے صورتحال تبدیل ہورہی ہےحکومت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنےامیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ یہ انتخابات ہر حکومتی جماعت کے لیے ہمیشہ اہم رہےکیونکہ ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرنے سے قانون سازی میں بہت آسانی ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں ایوان بالا کے انتخابات ایک عرصے سے کچھ تنازعات کا باعث ہیں اسکی ایک وجہ اپوزیشن جماعتوں کا حکومت پر اپنے امیدواروں کو پیسے کے زریعے ووٹ خرید کر منتخب کروانے کے الزامات ہیں۔ سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے جسکا مقصد پاکستان میں چاروں صوبوں کو وفاقی ایوان میں برابر کی نمائندگی دینا ہے۔ سینیٹ کا ادارہ آئین1973ءکے تحت وجود میں آیا تھا۔ الیکشن ایکٹ 2017ءکے مطابق ہر تین سال کے بعدسینیٹ کے انتخابات میں خفیہ بیلٹ کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار نامزد کرتی ہےاور اسکے بعد تمام اسمبلیوں میں خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے۔
اب موجودہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے یہ فیصلہ کیاہے کہ پارلیمان میں قانون سازی کے زریعے سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری کے بجائےشو آف ہینڈ کا طریقہ اپنایا جائے گا۔عمران خان کہتے ہیں کہ ملک میں 1973ء کے علاوہ کوئی ایسا الیکشن نہیں ہواجس میں ہارنے والے امیدوار نے اپنی شکست تسلیم کی ہو ہر بار ہر انتخابات کے بعد ہر پارٹی دوسری پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہےکہ ہر جماعت کہتی ہے کہ ایوان بالا کہ انتخابات میں ووٹوں کی خرید وفروخت کی جاتی ہے۔ ہر جماعت اپنے ایم پیز کو پیسے دے کرسینیٹ کی سیٹوں کے لیے ووٹ خریدے جاتےہیں۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےیہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کے زریعے سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ یعنی اوپن بیلیٹ پر ہوگا کیونکہ ہم ایوان بالا کے الیکشن میں کرپشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ہم یہ بل اسمبلی میں لائیں گئےتاکہ ایوان بالا کے انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت کو روکا جاسکے اور کوئی بھی جماعت دوسری جماعت پر دھاندلی کا الزام نہ لگا سکے۔
عمران خان نے مزید یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت کبھی ایسا نہ کرتی کہ اسطرح کی اصلاحات لے کر آئے ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن میں کسی قسم کی کرپشن نہ ہوسکےکوئی بھی جماعت دوسری جماعت پر کرپشن کا الزام نہ لگاسکے اور ہارنے والا اپنی شکست کو تسلیم کریں۔ یہ ترمیم پراعتماد انتخابات کے لیے لانا چاہتے ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے ایوان بالاکے انتخابات اوپن بیلٹ یا شوآف ہینڈ کے زریعے کرانے سے متعلق ریفرنس پر دستخط کرنے کے بعد حکومت نے عدالت سے رجوع کیا اور رائے مانگی ہے۔ اس صدارتی ریفرنس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے۔ صدر مملکت نے ریفرنس میں یہ بھی کہا ہے کہ سینیٹ میں خفیہ رائے شماری سے ارکان کی خرید وفروخت میں منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوتا ہے۔ صدارتی ریفرنس میں دو سابق حکمران جماعتوں کی رائے بھی شامل کی گئی ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن شامل ہیں ان کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کا موازنہ دیتے ہوئے کہا ہے کے دونوں پارٹیز اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں انتخابات شفاف طریقے سے ہونے چاہیے۔ ان جماعتوں کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی شفاف انتخابات کی بات کی ہے۔
انارٹی جنرل آفس کے مطابق اوپن بیلٹ سے مراد ہے کہ جو بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کارکن ایوان بالا کے انتخابات میں جب ووٹ ڈالے تو اس وقت ووٹر کا نام لکھا جائے تاکہ معلوم ہو کہ کس ووٹر نے کس امیدوار کو ووٹ ڈالا ہے۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل کے مطابق یہ ایک مشروط آرڈینینس ہے جسکا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔ اگر سپریم کورٹ اس شق کے بارے میں منظوری دے گی تو پھراس آرڈینینس کا اطلاق ہوگا وگرنہ سپریم کورٹ کے مطابق خفیہ انتخابات ہی ہوگئے۔
سپریم کورٹ کے ججز کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان عمل نہیں کہ آرڈینینس کے زریعے سینیٹ الیکشن میں ترمیم کی جائے۔ اس طریقہ کار سے ترمیم کرنے کا مطلب ہے کہ آئندہ آنے والی ہر حکومت آرڈینینس کے زریعے ہر بار ایوان بالا کے الیکشن میں میں تبدیلی کرتی رہے گی۔ لہذا ہمیں آئین کو مدنظر رکھتے ہوئےاس عمل کو باریک بینی سے دیکھنا ہوگا۔ تاہم سپریم کورٹ میں ابھی یہ ریفرنس زیر سماعت ہے اس ترمیم کے بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں طے پایا گیا۔
دوسری طرف اپوزیشن بھی حکومت کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ اپوزیشن نے اس آرڈینینس پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومتی بدنیتی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایوان بالا کے انتخابات بدلنے کی یہ شق آئین میں کہیں بھی نہیں ہے۔ مخالف جماعتوں کے مطابق حکومت اوپن بیلٹ انتخابات اپنی حکومت بچانے کے لیے کررہی ہےکیونکہ تحریک انصاف کوقانون سازی کے لیے دو ایوانوں میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔ جسکی وجہ سے گزشتہ ڈھائی برس میں قانون سازی کے بجائے حکومت نے قانونی امور سے نپٹنے کے لیے متعدد بار صدارتی آرڈینینس کا سہارا لیا ہے۔
موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو وہ سابقہ حکمران جماعتوں پر کرپشن کے الزامات لگاتی ہے اور وہ اسی لیے اوپن بیلٹ ترمیم کو شفاف انتخابات کے لیے لانا چاہتی ہے۔ جبکہ ووٹوں کی خرید وفروخت کا معاملہ تو پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے خود شکایتی خطوط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ فلاں امیدوار فلاں امیدوار کا اے ٹی ایم ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فیصل واڈا کو عمران خان نے ووٹ دیاہے اور وہ انھیں سینیٹر بنانا چاہتے ہیں لیکن گورنر عمران اسماعیل اور علی زیدی فیصل واڈا کی جگہ محمود مولوی کو لانا چاہتے ہیں جوکہ ارب پتی ہونے کے ساتھ ساتھ علی زیدی کے بھی لاڈلے ہیں۔
فیصل سلیم کو بھی ووٹ کیوں دیا گیا وہ اس لیے کہ وہ بڑی انڈسٹری کے مالک ہیں اور کچھ رہنماؤں کے اے ٹی ایم ہیں۔ سندھ اسمبلی میں سیف اللہ ابڑو کو ووٹ بھی ان کے ارب پتی ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے اور ان کے بارے میں بھی پی ٹی آئی سندھ کے عہدیدار شکایت کرچکے ہیں کہ وہ بھی بعض رہنماؤں کے لیے اے ٹی ایم ہیں۔ الغرض موجودہ حکومت کا نئی ترمیم کے فیصلے پر اپوزیشن بھی متفق نہیں اور سب سے اہم کہ سپریم کورٹ نے بھی اس ترمیم کے بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا۔ اب دیکھیں سپریم کورٹ کیا فیصلہ دائر کرتی ہے۔