Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aziz Zahira Malik
  4. Corona Ki Teesri Lehar Aur Maeeshat

Corona Ki Teesri Lehar Aur Maeeshat

کرونا کی تیسری لہر اور معشیت

حالیہ تحقیق کے مطابق کرونا وباء دوبارہ سے پھیل رہی ہے اس وباء کے پھیلنے کی وجوہات لوگوں کا ایس وپیز پر عمل نہ کرناہے۔ پاکستان میں اب تک کرونا کے چھ لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ اور تقریباً ساڑھے 13 ہزار اموات واقع ہوئی ہیں۔ پاکستان میں 24 گھنٹے کے دوران کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 7 فیصد تک جا پہنچی، کورونا وائرس سےمزید 58 افراد جاں بحق ہوگئے، جبکہ 70 سال سےزائد عمر کے بزرگوں کو آج سے ملک بھر میں واک ان کورونا ویکسی نیشن کی سہولت دستیاب ہوگی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے مزید 2 ہزار511 کیسز سامنے آئے ہیں، مزید 58 افراد اس موذی وباء کے سامنے زندگی کی بازی ہار گئے، جبکہ اس بیماری سے1 ہزار136مریض شفایاب ہو گئے۔ ملک بھر میں کورونا وائرس سے انتقال کرنے والوں کی مجموعی تعداد 13 ہزار 595 ہو گئی ہے، جبکہ کُل مریضوں کی تعداد 6 لاکھ9ہزار964 ہو چکی ہے۔

کورونا وائرس کی تیسری لہر میں تیزی کے باعث لاہور، راولپنڈی اور سیالکوٹ کے مزید علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس ٹیسٹ زیادہ مثبت آنے والے علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن لگایا جا رہا ہے، لاہور کے 1، سیالکوٹ کے 6 اور راولپنڈی کے مزید 15علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا جارہا ہے۔ لاک ڈاؤن والے علاقوں میں تمام شاپنگ مالز، ریستوران، نجی اور سرکاری دفاتر بند رہیں گے جبکہ علاقہ مکینوں کی نقل و حمل محدود ہوگی، انتہائی ضرورت پر ایک فرد ایک سواری استعمال کرسکے گا۔ میڈیکل اسٹورز، لیبارٹریز، کلیکشن پوائنٹس، اسپتال اور کلینکس 24 گھنٹے کھلے رہیں گے، ملک شاپس، چکن، گوشت، مچھلی کی شاپس اور بیکریاں شام 6 بجے تک کھلی رہیں گی۔ جنرل اسٹورز، آٹے کی چکیاں، فروٹ، سبزی کی دوکانیں، تندور اور پیڑول پمپس صبح 9 تا شام 7 کھلیں گے۔

کورونا وائرس نے نوع انسانی کو بے رحمی سے جکڑ رکھا ہے۔ عوام نے گزشتہ مارچ 2020 جس اذیت و آزمائش، معاشی مشکلات اور بے یقینی کے خدشات اورکشمکش میں گزارا وہ کورونا کی وحشت اور دہشت کی کھلی کتاب بن گیا ہے۔ کورونا نے سماجی شکست وریخت کی اندوہناکی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، صحت کا انفرا سٹرکچر تباہ ہوا، جو رہی سہی عوامی استقامت تھی اسے بھی اب بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی نے تیسری لہرکے خطرہ سے دوچار ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ اور ہلاکتوں کے اثرات ہمہ جہتی ہوئے ہیں۔ ووہان سے جنم لینے والے جرثومہ نے انسانی صحت، ملکی معیشت واقتصادیات اور سیاسی سسٹم پر جو تابڑ توڑ حملے کیے اس کی زیر زمیں زلزلہ جاتی گڑگڑاہٹ سیاست کے ایوانوں میں سنائی دی۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن سے دوکروڑ سے زاید محنت کش طبقات شدید معاشی مصائب کا شکار ہوئے، دنیا میں غربت بڑھی، ترقی یافتہ اور خوشحال ہنر مند اور آسودہ حال لوگ رفتہ رفتہ کورونا کے وبائی حملوں سے نیم جان ہوگئے۔ حکومت نے محدود وسائل اور ناقابل بیان معاشی مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پہلی لہرکا سامنا کیا، ماسک، سماجی فاصلہ اور ہجوم سے گریزکی حکومتی پابندیوں کو قبول کیا لیکن یہ وائرس تلخ ترین تجربات کے حوالے سے اب تک آنے والے وبائی اثرات ومضمرات کے تناظر میں دل دہلانے والا ثابت ہوا۔ اس کا دورانیہ اعصاب شکن، ویکسین کی تیاری اور اس کے استعمال نے اعجاز نفس مسیحاؤں کو بے بس کرکے رکھ دیا۔ عالمی ادارہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیاری ایک بریک تھرو ہے تاہم اس کا استعمال اور عالمگیر تباہ کاریوں نے دنیا کے ماہرین صحت کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے دوا کی اجتماعی مدافعت کے حصول کے بارے میں کہا ہے کہ کوئی یقینی رائے دینا ممکن نہیں، کئی ممالک اسے سیاسی تحفظات کے باعث نسخہ کیمیا ماننے پر تیارنہیں، ایران بھی اسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اسی سیاق وسباق میں اب تیسری لہر کے خدشات نے پاکستانی عوام کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے جس کی بنیادی وجہ ملکی معیشت اور سیاست کورونا کے متوازی کئی چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ عوام سسٹم کے استحکام کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ غریبی اور امیری کا فرق کے ٹو کے پہاڑ سے بلند ہوتا جا رہا ہے۔ کرپشن کی ڈورکا سرا ارباب اختیار کی گرفت میں آئے تو بہت سارے مسئلے حل ہوسکتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی اقتصادی اور معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے حکومت کے اور اس کی معاشی ٹیم کے پاس کرسٹیانو رونالڈو جیسی شوٹنگ پاور بھی ہو، حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے ٹھوس اقدامات اور واضح لائحہ عمل بھی ہو جب کہ کورونا کی تیسری لہرکا عندیہ الارمنگ ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے حفاظتی تدابیر پر مستقل مزاجی سے عمل کرنے کی ہدایت عوام کے لیے بروقت ہے مگر حکومت عوام کو وہ سہولتیں، مالی مدد اور معاشی سپورٹ بھی مہیا کرے، اسے موجودہ سیاسی صورتحال سے نکالنا بھی کورونا کی تیسری لہر سے بڑا امتحان ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا سے جڑے انسانی مسائل ملکی سیاست ومعیشت سے بھی منسلک ہیں۔ کورونا نے شہریوں کو رزق کی تنگی سے بھی پریشان کردیا ہے، لوگ مہنگائی سے بہت دل گرفتہ ہیں، معاشی مسیحاؤں کی سرکاری ٹیموں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ مارکیٹ اکانومی کی کونسی خرابی کی اصلاح کریں۔ مہنگائی کسی کے کنٹرول میں نہیں آرہی، چینی، آٹا، گھی، خوردنی تیل، برانڈڈ خشک دودھ اور مشروبات مہنگے ہوگئے، کل ہی ارباب اختیار سستی چینی کی خوشخبری دے رہے تھے، 80 روپے کلو چینی اور آٹے کی قیمت میں کمی کی یقین دہانی کرا رہے تھے کہ آٹے اور چینی مافیا حرکت میں آگئی اور اب اطلاع ہے کہ دام سو روپے فی کلو تک پہنچ چکے ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کہ کسی چیزکو قرار نہیں، دام میں اضافہ راتوں رات ہوجاتا ہے کوئی اتھارٹی نہیں جو عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچائے۔ اب ایسی صورتحال میں کورونا کی تیسری لہرآگئی تو عوام کس سے فریاد کریں گے، بقول شاعر

ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکل

وبا کی دوسری لہر میں کچھ ممالک میں بہت زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ برطانیہ، امریکا میں کورونا سے جتنی اموات 2021 میں ہورہی ہیں اتنی2020 میں نہیں ہوئیں۔ پاکستان نے مکمل کے بجائے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو اپنایا ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتے کے بعد وبا کا پھیلاؤکم ہوا۔ اسد عمر نے مزید کہا کہ حکومت کورونا ویکسین حاصل کرنے کے لیے تیزی سے فیصلے کر رہی ہے، چینی کمپنی سے بات چیت جاری ہے، جلد اچھی خبر دیں گے، کچھ ممالک میں کورونا کی تیسری لہر بھی دیکھی ہے۔ ویکسین آنے میں وقت لگے گا اور اس وقت تک ہر شخص کی ذمے داری ہے کہ وہ احتیاط کرے۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ صنعتی شعبے کی ترقی میں واضح تیزی آرہی ہے۔ نومبر2019کے مقابلے میں نومبر 2020 میں صنعتی گروتھ 14۔ 5فیصد رہی۔ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ وہ "فروری کے اوائل میں " چین سے سینوفرم کووڈ19 ویکسین کی پہلی کھیپ وصول کرے گا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئرکارکنوں کی رجسٹریشن شروع کردی ہے۔ ویکسین کی11 لاکھ ڈوزکی پہلی کھیپ ہیلتھ ورکرز کے لیے ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ رواں سال جون اور ستمبر کے درمیان عام لوگوں کو ویکسین کے قطرے پلائے جائیں گے۔ این سی او سی کا کہنا ہے کہ ہیلتھ ورکرز رجسٹریشن کا طریقہ کار جاننے کے لیے این سی او سی کی ویب سائٹ وزٹ کریں۔ ویکسین صرف رجسٹرڈ افراد کو ہی لگائی جائے گی۔ ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا کہ کورونا سے مزید22 مریض انتقال کر گئے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور فرنٹ لائن پر موجود طبی ٹیموں کو وسائل، بنیادی سہولتیں دی جائیں، عوام دو لہروں سے بچ کر نکلے ہیں تو ان کو ان کی جرات وطاقت پر شاباش دی جائے، ان لاکھوں شہریوں کو جن کے گھر کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں، جو محنت کش طبقات اوپر لائے جانے کے حکومتی وعدوں کے انتظار میں ابھی تک اہل کرم کی راہ تک رہے ہیں۔ ان کی داد رسی اور راشن نقد رقم اور اسپتالوں میں ہر ممکن علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ عوام کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے کورونا وائرس کی ستم رانیوں سے نمٹنے کے وسائل سے بھی سرفرازکریں، سچ تو یہ ہے کہ عوام کا غربت سے نروس بریک ڈاؤن ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ ارباب اختیار اور وزرا، مشیران ومعاونین خصوصی بیان بازی چھوڑکر مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ ان غریبوں سے ان کے دکھ شیئرکریں، ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ معاشرے میں عوام کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک بے درد سیاست ان کا مقدر ٹھہری ہے تو اس دلدل سے بھی ارباب اختیار ہی ان کو نجات دلاسکتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ حکومت کورونا کی تیسری لہر کی تباہ کاریوں سے پہلے ہی اتنے وسائل مہیا کرے کہ غریبوں کو زندہ رہنے کا آسرا ہوجائے۔ ابھی عمل کا وقت ہے، عوام وعدوں پر جینے کا حوصلہ بھی ہار چکے۔ اب کوئی درکھلے ایک ایسی تبدیلی آئے جو قوم کے سارے دکھوں کا ازالہ کردے، جمہوریت یہ کام نہیں کرسکی تو ایسی جمہوریت کس کام کی۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar