Rishte Bachayen, Anayen Nahi
رشتے بچائیں، اَنائیں نہیں
ایک جاننے والے ہیں، اُن کی دو بیٹیوں کی شادی تھی۔ میں کسی کام سے ان کے گھر چلا گیا۔ وہاں گیا تو ایک بڑے ہی عزیز چاچو بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے بھی ملاقات ہوگئی۔ کچھ دیر گزری تو ایک اور رشتے دار بھی آ گئے جو کہ کونسلر بھی تھے۔ میں پاس بیٹھا اُن کی گفتگو سنتا رہا۔ مجھے ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ جن کے گھر میں گیا تھا یعنی بیٹیوں کے والد صاحب، اُن کی اپنے بھائیوں اور والدین سے کچھ اَن بن چل رہی تھی اور دو صاحبان جو موجود تھے وہ صلح کروانے کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔
ان کے بیچ کافی دیر تک ایک لمبی بحث و تکرار جاری رہی اور پھر کھانے کا بلاوا آ گیا۔ ہم چاروں وہاں سے اٹھ کر دسترخوان پر چلے گئے۔ اب کھانے کے دوران بھی یہ لوگ اُنہیں باتوں میں مصروف رہے تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں بیچ میں بول پڑا۔
میں نے کہا کہ دیکھیں میں ابھی بہت چھوٹا ہوں، آپ میرے بڑے ہیں، بزرگ ہیں، مجھ سے بھی زیادہ تجربہ رکھنے والے لوگ ہیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ دھیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور یہ بات میں نے آپ جیسے بڑوں سے ہی سیکھی ہے کہ بیٹی پرائی نہیں ہوتی۔ وہ سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ تو پھر میرے خیال میں ان کو صلح کے لیے راضی کرنا ایک باپ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ یعنی یہ بیٹیوں کی شادی کرنے لگے ہیں اور رشتے داروں کو منانا بھی انہوں نے ہی ہے؟
بھئی یہ کیوں جائیں کسی کی دہلیز پر۔ میرے خیال میں تو لڑکیوں کے چاچوں لوگوں اور دادی کو بلائے بنا ہی آ جانا چاہیے۔ ایک تو یہ اپنی بیٹیوں کو خود سے جدا کرنے لگے ہیں اور ان کے بھائیوں کو بجائے ان کا ساتھ دینے، حوصلہ بننے کے اُلٹا ناراض ہو کر بیٹھے ہیں جو کہ میرے نزدیک بہت ہی غلط بات ہے۔ ایک بیٹی کے باپ کو اتنا رسوا نہیں کرنا چاہیے۔ چاچوؤں کو چاہیے کہ خود چل کر اس گھر میں آئیں اور دونوں بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنا ہونے کا ثبوت دیں۔
میں نے بات ختم کی تو کونسلر صاحب بولے کہ یار لڑکا ہے تو چھوٹا مگر اِس کی بات نے مجھے قائل کر دیا ہے۔ بات میں دم ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اُس نے کہا کہ میں اب دوسرے لوگوں کو جا کر مناؤں گا نہ کہ اب ادھر آؤں گا۔ دوسرے چاچو بھی رضا مند ہو گئے کہ لڑکے نے اچھی بات کی ہے۔
جب کھانا کھا کر فری ہوئے تو چائے کے کپ لیکر ہم چھت پر چلے گئے۔ تب بیٹیوں کے والد نے ایک جملہ بولا کہ میں اپنے بھائیوں سے صلح نہیں کروں گا اور میں اس بات پر ہمیشہ قائم رہوں گا۔ پھر کہنے لگا کہ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے کہ اگر میرے دل میں اپنے بھائیوں کے لیے کوئی ہمدردی یا جذبات ابھر بھی آئے تو میں فوراً اپنی زبان کاٹ دوں گا تاکہ میری زبان اُن جذبات کو بیان کرنے سے باز رہے۔
میں نے جب یہ جملہ سنا تو ہکا بکا رہ گیا۔ یعنی اِس نسل میں ہی انا پرستی رَچی بسی ہوئی ہے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ جنہیں اپنے رشتوں سے زیادہ اپنی انائیں پسند ہیں۔ جو اکیلے تو رہ لیں گے مگر کسی سے صلح صفائی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ شاید یہی وجہ ہے معاشرہ دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ نفسا نفسی نے ہر گھر، ہر دل میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں کہ جو نفرت کرنے کے لیے تو زبان کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن اگر اِسی زبان کو پیار کا اعتراف یا اظہار کرنے کے لیے استعمال کرنا پڑ جائے تو یہ کاٹنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
خدارا، آخری سانسیں لیتے اِس بیمار معاشرے کو محبت کی دوا سے ٹھیک کرنا شروع کر دیں۔ معاف کرنا سیکھ جائیں۔ اپنی نام نہاد اناؤں کو دفن کر دیں ورنہ یہ انا رشتوں کی وہ قبریں بنانا شروع کر دے گی کہ قبرستانوں کے لیے جگہیں کم پڑ جائیں گی۔ رشتوں میں مٹھاس لائیں اور خوش رہنا سیکھیں۔