Mamta Ka Qatil Zinda Kyun Rehte Hain
ممتا کے قاتل زندہ کیوں رہتے ہیں
دنیا کی سب سے بڑی تڑپ ممتا کی ہوتی ہے اور جو اِس تڑپ کی وجہ بنتا ہے اُس سے خدا روٹھ جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک ماں کو میں جانتا ہوں، جس کو اُس کے بچوں سے عدالت نے یہ کہہ کر جدا کر دیا تھا کہ وہ اِن کو پالنے کے لائق نہیں ہے۔ اُس ممتا کے زرد چہرے کو میں آج تک نہیں بھول پایا۔ وہ تڑپ وہ درد جس کا مرہم صرف اولاد تھی، مگر اُسے مرہم نہ مل سکا۔ بچے مرہم تھے مگر باپ جلاد تھا۔ باپ نے کبھی ممتا کی آنکھوں کو بچے نہ دیکھنے دئیے۔
درخت سے ہوا اور پرندے نکال دو تو پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا ویسے ہی کسی ماں سے اُس کا بچہ چھین لو تو پیچھے عورت بھی نہیں بچتی۔ جب ممتا اولاد ہوتے ہوئے بھی بانجھ ہو جائے تو پھر آسمان سے رحمتیں نہیں اُترا کرتیں بلکہ وبائیں پھیلنے لگتی ہیں۔
اُس ماں کے درد کا کوئی تریاق نہیں تھا۔ اُسے چارپائی نے دبوچ لیا تھا۔ دماغ ہوش سے دور رہنے لگا تھا۔
ممتا کے نصاب میں"اولاد" کتاب ہوا کرتی ہے اور ایک نمبر بھی کم نہیں ہونے دیتی، پورے سو نمبروں سے پاس ہوتی ہے۔
ممتا کی جھولی میں اولاد کی جدائی ڈال دی جائے تو اللہ ناراض ہو جایا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ماں کی محبتوں کی مثالیں دیتا ہے۔ جس طرح سمندروں کے پانی پر پُل نہیں ہوا کرتے، اِسی طرح ماں کی ممتا کی کوئی حد نہیں ہوا کرتی۔ اُسے کوئی بھی سزا دے دو لیکن اُس کی اولاد کو کچھ نہ کہو ورنہ وہ تڑپ سے مر جائے گی۔
وہ بھی مر گئی تھی۔ اپنے بچے کی جدائی میں۔
ہاں پاگل ہو کر مری تھی۔ ہوش رہتا بھی کیسے؟ چاند کو قید بھی کر لیا جائے تو اُس کی روشنی کو قید نہیں کیا جا سکتا، اِسی طرح ماں کو بچے سے جدا تو کیا جا سکتا ہے مگر ممتا کی کرنوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ وہ جس حال میں بھی ہو بچوں سے پیار ہی کیا کرتی ہے۔
وہ بھی جنازہ پڑھنے آیا تھا۔ ہاں وہی دشمنِ جاں، ممتا کا قاتل۔ جانے کس حق سے پڑھنے آیا تھا۔ دل کیا تھا کہ اُسے اُسی جگہ گ-و-ل-ی مار دوں اور کسی کو اُس کا جنازہ بھی نہ پڑھنے دوں۔ پتھر دل حیوان۔ ایک ماں کو مارنے والا، زندہ رہنے کا حق کھو دیتا ہے۔
جانے کتنے ہی ایسے عدالتی فیصلے ماؤں کو نگل چکے ہیں۔ کتنے ہی بھیڑیے باپ کی شکلوں میں ممتا کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ یہ قیامت اب بھی جاری و ساری ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
پھر ہم سوال کرتے ہیں کہ ہم پہ اِتنے عذاب کیوں مسلط ہیں؟