Kash Tum Samajhti
کاش تم سمجھتی
کیا تمہیں پتہ ہے کہ انسانی کان 20 ہرٹز سے لے کر 20,000 ہرٹز تک کی درمیانی تعداد کی آوازوں کو سن سکتے ہیں؟ اور مزید یہ کہ اس سے اوپر اور نیچے کی تعداد کو سننے کی صلاحیت خلیات کے حجم اور ان کی حساسیت سے منسلک ہوتی ہے۔
لیکن محبت، سائنس سے بہت مختلف کام کرتی ہے۔ یہ ہرٹز کی بجائے الہام کے فارمولے پر چلتی ہے۔ یہ وہ آوازیں بھی سُن لیتی ہے جو سائنس کے ہرٹز سے بالکل مطابقت نہیں رکھتیں۔ دل کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔ محبوب چاہے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، یہ الہام کے توسط سے سب جان لیتی ہے۔
تمہیں مزید بتاؤں کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ایک نارمل دل کے دھڑکنے کی اوسط رفتار اگر بڑھ جائے تو یہ جلدی مر جانے کی علامت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اچھے اور ورزشی کھلاڑی کا دل ایک منٹ میں چالیس سے پچاس جبکہ ایک عام انسان کا دل آرام کی حالت میں 60 سے 100 بار دھڑکتا ہے۔
یعنی ورزش اور صحت مند چیزیں کھانے سے ہم اپنے دل کی رفتار کو قابو میں رکھ سکتے ہیں وگرنہ دل کی رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم جلدی مر سکتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق اگر دل کی رفتار نارمل سے دس دھڑکن زیادہ ہے تو ایسے شخص کے جلدی مر جانے کے چانسز نو فیصد بڑھ جاتے ہیں۔
اور یہاں بھی میڈیکل سائنس محبت کی سائنس کے آگے اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ میڈیکل سائنس، محبت پہ اپلائی نہیں ہوتی۔ کسی بھی ورزشی اور ایتھلیٹ شخص کو اگر محبت ہو جائے اور وہ محبوب سے بچھڑ جائے تو وہ لاکھ کوشش کر لے مگر دل کی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔
وہ ورزش اور صحت مند کھانے کا روٹین بےشک وہی رکھے مگر دل کی دھڑکنوں پر اُس کا کوئی کنٹرول نہیں رہے گا اور یوں رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ جلدی اس دنیا کو چھوڑ کر جا سکتا ہے۔ یعنی ہجر میڈیکل سائنس کے فیکٹس اینڈ فگرز کو نہیں مانتا۔ اِس کے اپنے قانون ہوتے ہیں۔
محبت میں دل کی دھڑکن کو نارمل رکھنے کے لیے کسی ورزش یا اچھے کھانے کی نہیں بلکہ محبوب کی ضرورت پڑتی ہے اور تمہیں پتہ ہے کہ مجھے دو الہام ہو گئے ہیں؟ ایک یہ کہ تمہارے دل کی دھڑکنوں پر اب میرا نام نہیں رہا اور دوسرا یہ کہ میرے دل کی دھڑکنیں اب وہ رفتار پکڑ چکی ہیں کہ جس کا آخری اسٹیشن موت ہوتا ہے۔
کاش تم سمجھتی کہ محبت، سائنس کے فارمولاز اور ریسرچز سے نہیں بلکہ اپنے حساب سے کام کرتی ہے۔
کاش تم سمجھتی۔۔!