Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Jeena Pare Ga Wrana Mar Jao Ge

Jeena Pare Ga Wrana Mar Jao Ge

جینا پڑے گا ورنہ مر جاؤ گے

کہتے ہیں کہ ایک حکیم اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اُس کی شہرت کے ڈنکے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ وہ اپنے اصولوں کو لیکر بڑا سخت تھا۔ وہ کسی کو بھی اپنا شاگرد بنانے سے گریز کیا کرتا، لیکن اگر کسی کو بنانے کے لیے ہاں کرتا تو کڑی شرائط کے ساتھ کرتا۔ کئی ماؤں کے لعل اُس کی سخت شرائط کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ لیکن اِن سب کے باوجود اُس نے شرائط پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں تھا کیا۔

ایک دفعہ ایک عورت اُس کے پاس اپنے بیٹے کو شاگرد بنانے کی غرض سے لیکر آئی تو اُس نے منع کر دیا۔ عورت بھی ضدی تھی نہ مانی اور اصرار کرتی رہی۔ حکیم نے تنگ آ کر کہا کہ میری ایک شرط ہے، اگر تمہارا بیٹا میری شرط پوری کر گیا تو میں اُسے اپنا شاگرد بنا لوں گا اور ہاں اِس شرط کو پورا کرنے میں اُس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ عورت بولی کہ اُسے ہر شرط قبول ہے۔ حکیم نے عورت کے لڑکے کو جنوری کی جان نکالتی ٹھنڈ میں ایک بغیر چھت والے گھر میں بند کر دیا۔

وہ کمرہ پوری طرح سے خالی تھا۔ کوئی بستر یا چارپائی کچھ بھی نہیں تھا۔ بس ایک بڑا سا گول پتھر تھا اور خالی پن تھا۔ حکیم اُس لڑکے کو بند کرنے کے بعد عورت سے بولا کہ اب تمہاری قسمت۔ اگر یہ صبح تک زندہ بچ گیا تو میں شاگرد بنا لوں گا۔ عورت تائید میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئی، صبح ہوئی تو حکیم اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق اُٹھا، اور تالے کی چابی لیکر کمرے کی جانب یہ سوچ کر بڑھنے لگا کہ آج اُسے ایک اور لاش کو ٹھکانے لگانا پڑے گا۔

لیکن اُس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ جب تالا کھولنے پر لڑکا زندہ سلامت سامنے کھڑا پایا۔ گہری اور چبھتی سردی کے باوجود بھی وہ پسینے میں شرابور تھا۔ حکیم نے زمین پر ایک نظر دیکھا تو پتھر کے کئی نشان موجود تھے، یعنی اُس لڑکے نے سردی سے بچنے کی خاطر ساری رات پتھر کو پوری کمرے میں اِدھر سے اُدھر دھکیلتا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اُس کا جسم حرکت میں رہا اور محنت اِس قدر زیادہ تھی کہ سردی میں بھی اُس کے اندر کی گرمی باہر پسینے نکال رہی تھی۔

حکیم نے پتھر بھی صرف اِسی وجہ سے ہی رکھا تھا۔ وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ جو بھی کمرے میں رہے، وہ پتھر کی مدد سے خود کو حرکت میں رکھ سکے اور اِس بار اُسے اُس کی سوچ کے مطابق بندہ ملا تھا۔ ہماری زندگی بھی تکلیفوں، مصیبتوں، اور پریشانیوں کی سخت سردی میں گھری ہوئی ہے۔ اگر ہم نے خود کو حالات کے حوالے کر دیا تو ہم بھی مر جائیں گے۔ زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔

جینا ہے تو سخت محنت کرنی پڑے گی وگرنہ سانس ساتھ چھوڑ جائے گی۔ اِتنی محنت، اِتنی محنت کہ بڑی سی بڑی مصیبت یا کڑا امتحان بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اِتنی محنت کہ لوگ حیران رہ جائیں۔ یہ معاشرہ اُٹھ کر تالیاں بجانے لگے۔ اِتنی محنت کہ کامیابی قدموں میں آ پڑے۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla