Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Dar Ki Taqat

Dar Ki Taqat

ڈر کی طاقت

کہتے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ نے ایک عجیب سا اعلان کیا۔ اعلان یہ تھا کہ کوئی بھی شخص بکری کے ایک بچے کو گھر لیکر جائے گا جہاں اُسے چارے کی بالکل کمی نہیں ہوگی لیکن تین ماہ کے بعد جب بکری کے بچے کو بادشاہ کے حضور پیش کیا جائے گا تو تب اُس کا وزن نہیں بڑھا ہونا چاہیے۔ جو اِس کام میں کامیاب ہوگا، بادشاہ اُسے ڈھیروں انعام و کرام سے نوازے گا اور جو ناکام ہوا، اُس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔

بہت سے لوگ بکری کے بچے کو ساتھ لیکر گئے۔ ساتھ میں بادشاہ کا ایک خاص آدمی بھی جایا کرتا تھا جو کہ نگرانی کیا کرتا تھا کہ آیا، وہ شخص بکری کے بچے کو چارہ اچھے سے ڈالتا ہے یا نہیں۔ لیکن جتنے بھی لوگوں نے اِس چیلنج کو مکمل کرنے کی کوشش کی سب ناکام ہوئے اور ڈھیر سارے انعام کی لالچ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ بکری کے بچے کو چارہ کھلایا جائے اور اُس کا وزن نہ بڑھے۔ بچے کی تو ویسے بھی نشوونما کی عمر ہوتی ہے تو وہ تیزی سے گروتھ کرتا ہے۔

ایک دن ایک بزرگ بادشاہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ اُسے بکری کا بچہ دیا جائے اور یہ طے ہے کہ تین تو کیا پانچ ماہ کے بعد بھی بکری کے بچے کا وزن نہیں بڑھے گا۔ پورا دربار بزرگ کی بات سن کر ششدر رہ گیا۔ بادشاہ نے اُس بزرگ کو بکری کے بچے اور اپنے ایک خادم کے ساتھ رخصت کر دیا۔ تین مہینوں بعد جب بکری کا بچہ لایا گیا تو اُس کا وزن واقعی نہیں بڑھا تھا بلکہ پہلے سے بھی کم تھا۔ بادشاہ بڑا حیران اور متاثر ہوا۔ اُس نے اپنے خادم خاص سے پوچھا کہ کیا یہ بزرگ بکری کے اِس بچے کو چارہ نہیں ڈالتے تھے؟

خادم بولا، حضور۔ اِن بزرگ نے چارے میں کبھی کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لیکن یہ ایک کام کرتے تھے کہ جب جب بکری کے بچے کو چارہ ڈالتے تھے ساتھ میں چھری کو تیز کرنا شروع کر دیتے تھے۔ جس سے بکری کے بچے کو یہ لگتا تھا کہ شاید کھانے کے بعد میرا قتل کر دیا جائے گا۔ اِس کے دل میں مرنے کا ڈر بیٹھ گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ اپنا وزن نہیں بڑھا سکا۔ بادشاہ بڑا خوش ہوا اور اُس نے نہ صرف اُس بزرگ کو ڈھیروں انعام و کرام سے نوازا بلکہ اپنے پاس وزیر رکھ لیا۔

بالکل اِسی واقعہ کی طرح ہماری زندگی میں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے۔ ہم تمام سہولیات ہوتے ہوئے بھی کامیاب نہیں ہو پاتے۔ کیونکہ ہمارے ذہن میں بھی کوئی ایسا ڈر بٹھا دیا جاتا ہے کہ یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔ ہم چاہ کر بھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہوتے ہیں۔ بکری کے بچے کی طرح سال بعد پتہ چلتا ہے کہ بس سال ہی گزرا ہے، باقی کوئی تبدیلی ہماری زندگی میں نہیں آئی۔

یہ ڈر ہمارے خوابوں کو نگل جاتا ہے۔ ہمارے سکون کو کھا جاتا ہے۔ وہاں ڈر تھا قتل ہونے کا۔ یہاں ڈر ہوتا ہے فیل ہو جانے کا۔ رشتہ داروں کی تنقید کا۔ لوگ کیا کہیں گے؟ فلاں تو طنز مار مار کے جان کھا جائے گا۔ ایسے کئی ڈر ہماری ذاتی زندگی کو ترقی کرنے سے روکے رکھتے ہیں۔ ہم کوئی کام شروع کر بھی لیں تو جلد ہی تنقید کی زد میں آ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ڈر، یہ معاشرتی ڈر یہ ہماری کامیابیوں کو پھلنے پھولنے سے پہلے ہی مسل ڈالتا ہے۔

ہم اشرف المخلوقات ہیں، ہمیں مسئلے حل کرنا آتے ہیں۔ کوئی بھی ڈر آخری ڈر نہیں ہوتا اور سب سے بڑا ڈر اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ اگر وہ ڈر دل میں سما جائے تو باقی ڈر خود ہی بھاگ جاتے ہیں۔ اِس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ آپ صرف اپنے کام پر دھیان دیں۔ ادھر ادھر توجہ دینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ادھر ادھر دیکھنے سے دھیان بھٹکے گا اور آپ گئے کام سے۔

یاد رکھیں، ترقی صرف انہیں لوگوں کی جھولی میں گرتی ہے جو اپنے کام پر دھیان دیتے ہیں اور ایک وقت میں صرف ایک ہی کام کرتے ہیں۔ تو اگر آپ کے سالوں گزرنے کے بعد بھی آپ کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آ رہی تو اپنا طریقہ کار بدل کر دیکھیں۔ انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza