Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Bebasi

Bebasi

بےبسی

ماں مجھے ان بڑے گھروں میں کام کرنے مت بھیجا کرو۔ مجھے پڑھنا ہے اور اپنی قسمت بدلنی ہے۔ دھنو نے شام میں گھر داخل ہوتے ہی کہا۔

ارے کون سی قسمت؟ یہ اتار چڑھاؤ ہماری قسمت میں نہیں ہوتا بس لکیر کی فقیر ہوتی ہے یہ اور ایک ہی رفتار سے چلتی ہے، کچھوے کی رفتار سے۔ تُو یہ بڑے بڑے خواب دیکھنا چھوڑ اور کام پر دھیان دے تاکہ گھر کا چولہا جلے، لگی سمجھ۔ اس کی ماں نے بھی آگے سے سنا ڈالیں تھیں۔

یہ ایک نہایت کچی بستی تھی، کچے گھر اور کہیں کہیں تو دیواروں کی جگہ کپڑے کے خستہ پرانے پردے لٹک رہے تھے۔ یہاں کے باسی یا بس اسٹیشن پر مانگتے تھے، کوئی مٹی کے برتن بنا کر بیچتا تھا تو کوئی شہر جا کر ٹریفک کے اشاروں پر کھڑی گاڑیوں کے شیشے صاف کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتا تھا۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے بچوں کو بھی چھوٹی عمر سے ہی کام پر لگا دیا جاتا تھا۔

میلے کچیلے لوگ، کچے بوسیدہ گھر، کیچڑ سے بھری گلیاں، یہی ان کا رہن سہن تھا اور یہ ایسے ہی رہتے تھے، انہوں نے اسی سب کچھ کو دل سے قبول کر لیا ہوا تھا اور شاید اسی وجہ سے ہی ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی۔

دھنو بھی اسی بستی میں پیدا ہوئی تھی جو کہ اب سترہ سال کی بھرپور جوان لڑکی بن چکی تھی۔ تیکھے نین نقش اور لبھاتا گندمی رنگ لیے وہ ان سے مختلف تھی، اس کی سوچ اور زندگی کو سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کا انداز بھی ان سب سے الگ تھا۔ وہ خود کو بدلنا چاہتی تھی لیکن ماں باپ کی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک ناکام ہو رہی تھی۔ ماں سارا دن گھر باریک لمبی تیلیوں سے چھج بناتی رہا کرتی اور باپ گٹر صاف کرنے کا کام کرتا تھا۔

دھنو پھر بھی اپنی بستی کے لحاظ سے ایک اچھا کام کرتی تھی جس کی وجہ سے بستی والے اس کے کام کو رشک کو کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ پوری بستی میں کوئی بھی عورت یا لڑکی کسی بڑی حویلی میں کام نہیں کرتی تھی یا یوں کہہ لیں کہ کوئی کام پہ رکھتا ہی نہیں تھا لیکن دھنو کی آگے بڑھنے کی سوچ، انداز اور اپنے اندر وہ اعتماد ہی تھا جس کی وجہ سے اسے کوٹھی میں کام مل گیا تھا۔ اور کوٹھی کی طرف سے پہننے کو ایک آدھ اچھا جوڑا کپڑوں کا بھی مل جاتا تھا۔

لیکن اِسے یہ کام بھی نہیں کرنا تھا، اسے تو بہت آگے جانا تھا۔ زندگی میں کامیاب ہو کر بڑا بننا تھا۔ لیکن ڈیڑھ سال کی انتھک محنت کے باوجود بھی وہ ایک ہی جگہ پر رکی ہوئی تھی۔ لیکن وہ پھر بھی پر امید تھی۔

کل اُسے جلدی کوٹھی پر جانا تھا تاکہ آنے والے مہمانوں کے لیے کمرے تیار کر سکے۔ کچھ مہمانوں نے عید گزارنے حویلی آنا تھا۔

دھنو اپنے وقت پر ہی پہنچ گئی تھی اور جاتے ہی اپنے کام میں جت گئی تھی۔ آج اس نے بیگم صاحبہ کی طرف سے ملا نیا جوڑا پہنا تھا۔ کیونکہ عید کا دن تھا تو بیگم صاحبہ نے خاص تاکید کی تھی کہ آج وہی جوڑا پہن کر آئے۔

وہ دوسری منزل پر بنے ایک کمرے میں صفائی کر رہی تھی، کہ اچانک ایک نوجوان کمرے میں داخل ہوا جسے دیکھ کر دھنو نے سلام کیا اور دل میں سوچا کہ یہی مہمانوں میں سے ایک مہمان ہونگے۔ لڑکے نے سوال کا جواب دیا اور پوچھا کہ تم کون ہو اور میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو؟

جی میں اس گھر کو نوکرانی ہوں اور میرا نام دھنو ہے۔ بیگم صاحبہ نے کہا تھا کہ میں آج اس گھر کی صفائی کر دوں کیونکہ مہمانوں نے آنا ہے۔

ہاں آج مہمانوں نے آنا تو ہے۔ امی نے مجھے بتایا تھا۔

تو کیا آپ بیگم صاحبہ کے بیٹے ہیں؟ پہلے تو کبھی آپ نظر نہیں آئے۔ دھنو نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔

ہاں۔۔! میں اس گھر کا مالک ہوں اور دو سال کے بعد لندن سے گھر لوٹا ہوں۔ لڑکے نے کن اکھیوں سے دھنو کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا اور تھوڑا آگے بڑھ کر اپنے میز کا دراز کھولا اور ایک رومال کو نکال کر اپنی مٹھی میں کر لیا۔

کہتے ہیں کہ عورت مرد کی نظر سے سب کچھ بھانپ لیتی ہے۔ دھنو بھی جان گئی تھی۔

وہ فوراً وہاں سے جانے کے پلٹی تو لڑکے نے اسے اپنے بازؤں میں دبوچ لیا اور اسی رومال کو اس کے منہ پہ رکھ دیا۔ دھنو کو اپنی آنکھیں بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں اور کچھ ہی سیکنڈز میں وہ ہوش و ہواس سے بیگانہ ہوگئی۔

***

آج شام واپسی پہ اُسے چلنے میں بڑے دقت ہو رہی تھی۔ پورا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ آنکھیں ابھی بھی نیم خوابیدہ تھیں۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی تو ماں نے سمجھا کہ شاید آج کام زیادہ ہو جانے کی وجہ سے تھک گئی ہوگی تو اس نے فوراً غسل خانے میں ٹب پانی کا بھر کر اسے کہا کہ وہ جا کر نہا لے اور کپڑے بھی غسل خانے کی خستہ دیوار پر رکھ دیے ہیں وہ بھی پہن لے۔

دھنو خود پر پانی پھینکتے ہوئے سوچ رہی تھی، کہ کب سے وہ اپنی ماں سے کہہ رہی تھی کہ اسے کام پر نہ بھیجا کرے، اسے کام نہیں کرنا۔ اسے تو بس پڑھ لکھ کر کچھ بڑا کرنا ہے۔ مگر اس کی ماں اس کی سنتی ہی نہیں تھی۔ اور دیکھ لو آج اِس کام نے تو دھنو سے اس کی کنوارگی بھی چھین لی تھی۔

اُس کی ماں اسے کہا کرتی تھی کہ تو اب چھوٹی بچی نہیں ہے بلکہ بڑی ہوگئی ہے اس لیے کام کیا کر کام اور اُسے خود بھی آج یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ واقعی اب چھوٹی بچی نہیں رہی۔

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry