Bantne Wale Bano
بانٹنے والے بنو
اللہ نے انسان کا سکون "بانٹنے" میں رکھا ہے اور یہ جمع کرنے میں لگا ہوا ہے، اِسی لیے ہی بےقراری کے دریا میں غوطے کھاتا رہتا ہے۔ والد کہا کرتے تھے کہ پُتر انسان اگر سب کچھ اکیلے کھانا شروع کر دے تو بدہضمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بانٹنے میں ہی اللہ نے مزہ رکھا ہے۔ کسی بچھڑے ہوئے سے ملنا ہو تو میلے میں جانا پڑتا ہے اور خیر بانٹنی ہو تو اللہ کی مخلوق میں چلے جایا کرو، وہاں کسی ضرورت مند کو ڈھونڈ لو، جو کچھ پاس ہے اُس کا کچھ حصہ اگلے کو دے دو، رب راضی ہو جائے گا۔
خدا کو راضی کرنا بھی کتنا آسان ہوتا ہے، فقط ایک آنسو زندگی کے سارے گناہ دھو ڈالنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دل فاختہ کا ہو تو عجیب سے واہموں اور خطرات کے ڈر سے گھِرا رہتا ہے لیکن دل میں اگر صرف خوف خدا سما جائے تو دنیا کے تمام ڈر خود ہی ختم ہو جایا کرتے ہیں۔ کوئی جان سے پیارا گھر میں نظر نہ آ رہا ہو تو نظریں دہلیز کے پاؤں نہیں چھوڑتیں، ادھر ہی ٹِک کے بیٹھ جاتی ہیں، اسی طرح خوشیوں اور، کھانے پلانے کو نہ بانٹا جائے تو دکھ ہماری جڑوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ سکون نہیں لینے دیتے۔
زندگی بڑی تیز اور خود غرض ہو چکی ہے۔ لالچ کے بادل اور بےحسی کے بارش نے انسانی وجود کو جل تھل کر دیا ہوا ہے۔ اب جب تک بانٹنے والی عادت کی دھوپ نہیں پڑے گی، بےحسی کے چھینٹوں سے بدن پاک نہیں ہوگا۔ جس انسان میں بانٹنے کی عادت نہ ہو اُسے بےسکونی کی دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے۔ پتھر اور شیشے ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اسی لیے ہی دل کے بغض نکالیں گے تب ہی خیر بانٹنے والے بنیں گے ورنہ ساری نعمتیں سلب کر لی جائیں گے۔
بغیر کسی غرض کے بانٹنے سے خدا خوش ہوتا ہے۔ کانٹوں کے ڈر سے پھول اُگانے بند نہیں کر سکتے، کسی بدلے کا خوف بھی ہو تو تب بھی نیکی کرنے سے باز نہ آؤ کیونکہ دل میں بدلے کا لالچ پیدا ہو جائے تو نیکی ضائع ہو جایا کرتی ہے۔ جھوٹ سے کتنے بھی پردے ڈال لو، سچ نہیں چھپایا جا سکتا۔ اِسی طرح دکھاوے کا بانٹنا بھی اپنی شناخت ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ اللہ کی رضا کے لیے ہے یا سب محض دکھاوا ہے۔ اور بےشک اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے اور اُس نے انسانوں کا سکون خیر بانٹنے میں رکھا ہے۔