Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Amma Bano

Amma Bano

اَماں بانو

اَمی ہر عید پر مجھے اپنے ساتھ اَماں بانو گھر لازمی لے کر جایا کرتی تھیں۔ وہ اُن کے لیے کھیر، کسٹرڈ اور ساتھ میں روٹی سالن بھی تیار کیا کرتیں اور اُنہیں نقد عیدی بھی دیتیں۔ امی کو اُن سے کوئی خاص اُنسیت تھی۔ وہ گھر کے کام کاج بھول جایا کرتیں مگر عید کے روز اَماں بانو گھر جانا کبھی نہیں بھولتی تھیں۔

اَماں بانو ایک بڑے سے گھر میں اکیلی ہی رہتی تھیں۔ کوئی بھی اُن کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ عید کے روز بھی وہ گھر پہ اکیلی ہی تھیں۔ کوئی رشتہ دار، کوئی بیٹا بیٹی کوئی بھی نہیں تھا آیا۔ جب کبھی وہ بیمار ہوتیں تو تب بھی امی ہی اُن کا خیال کرتیں، تب بھی کوئی ملنے نہیں تھا آتا۔ گھر واپسی پر جب میں اور امی راستے میں تھے تو میں نے امی سے پوچھا کہ اَماں بانو دنیا میں اکیلی کیوں ہیں؟ اُن کے اولاد، شوہر یا کوئی بھی رشتہ دار اُن سے ملنے کیوں نہیں آتا۔ کیا اُن کا کوئی نہیں ہے امی؟

امی نے کہا کہ گھر پہنچو پھر بتاتی ہوں اور گھر جا کر امی کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ جب رات ہوئی اور سونے لگے تو تب میں نے امی کو یاد کروایا کہ آپ نے مجھے اَماں بانو کے متعلق کچھ بتانا تھا۔ اچھا بتاتی ہوں مگر یہ بات تم اپنی حد تک ہی رکھنا اور دعا کرنا کہ اللہ اَماں بانو کے دُکھ کاٹ دے۔

پھر امی نے کچھ یوں بتایا۔

اَماں بانو ایک کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ سالوں گزر گئے مگر اماں بانو اولاد کی نعمت سے محروم رہیں۔ شوہر اچھا تھا اُس نے پھر بھی پاس رکھا اور دوسری شادی نہ کی۔ پھر اماں بانو کو اُس کی ایک کزن نے اپنا بیٹا دے دیا۔ اماں بانو بہت خوش ہوئیں، صدقے دیے نیاز بانٹیں اور دل سے اُس بچے کو اپنا بیٹا مان کر اُس کی پرورش کرنے لگیں۔ دن گزرتے گئے اور وہ بیٹا عمر کے زینے چڑھتے جوانی کی دہلیز پہ جا پہنچا۔ وہ خوب پڑھ لکھ کر اچھی نوکری کرنے لگا۔ لڑکا سمجھدار اور بہت فرمانبردار تھا۔ اماں بانو کے آگے کبھی اُف تک نہیں کرتا تھا۔ ہر بات کو حکم سمجھ کر پورا کیا کرتا۔ اماں بانو نے اُس کی پرورش کچھ اس انداز میں کی تھی کہ لڑکا اُن سے بہت ڈرتا تھا اور حکم عدولی کا تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

اِسی دوران اماں بانو کا شوہر بھی وفات پا گیا مگر زندگی اپنی ڈگر پہ چلتی رہی۔ جس کزن نے اماں بانو کو اپنا لختِ جگر دیا تھا اُس کا تعلق ایک غریب فیملی سے تھا۔ وہ کزن شدید بیمار رہنے لگی تھی۔ وہ اس کمزور حالت میں اماں بانو سے اپنے بیٹے کو ملنے کا کہتی مگر اماں بانو مرضی سے ہی اُس کے گھر جاتی۔ لڑکا بھی جانتا تھا کہ اُس کی سگی والدہ کون ہے۔ وہ اپنی ماں کی حالت دیکھ کر اندر ہی اندر بہت کڑھتا مگر اماں بانو کی پرورش اور دل میں بیٹھا خوف اُسے کوئی بھی قدم اُٹھانے سے باز رکھنے پر مجبور رکھتا۔ وہ اکیلے میں اپنی والدہ کے لیے بہت روتا مگر اماں بانو کے ڈر کی وجہ سے بس غم کو اندر ہی اندر پیتا رہتا۔

اس کی والدہ بیماری سے لڑتے لڑتے فوت ہوگئیں۔ ماں کی خدمت نہ کرنے کا پچھتاوا لڑکے کو اندر سے کاٹنے لگا۔ وہ اُس دن بہت رویا، اتنا کہ رو رو بےہوش ہو جاتا۔ ساری دنیا جانتی تھی کہ وہ کیوں رو رہا ہے اور اگر کوئی بےخبر یا پتھر دل تھا تو وہ صرف اماں بانو تھیں۔ یہ غم ٹَلا تو لڑکے کے والد کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ وہ چارپائی کے لیے ہی رہ گیا۔ چارپائی تو انسان کو بھی چارپائی بنا دیتی ہے۔ وہ انسان بھی چارپائی بننے لگا۔ لیکن اِس بار بھی جب لڑکے نے اپنے والد کے پاس جانے کی اجازت مانگی تو اماں بانو نے لڑکے کو وہاں جانے سے روک دیا اور کہا کہ میں اکیلی ہوتی ہوں میرا خیال کون رکھے گا۔ تمہارے سگے باپ کے پاس تو پھر بھی تمہارا ایک بھائی اور بہن موجود ہے۔ مگر میرا اس دنیا میں اور کون ہے۔ میں نے تمہارے لیے اپنا سب کچھ کھویا ہے۔ میری پرورش کا اب یہ صلہ دو گے مجھے۔ یوں جذباتی بلیک میل کرکے اماں بانو نے لڑکے کو اپنے پاس روکے رکھا۔

کہتے ہیں کہ رشتے خون کے ہوتے ہیں اور اپنوں کو درد ہو تو اپنے سکون سے کیسے رہ سکتے ہیں۔ وہ لڑکا بھی اپنے والد کے لیے پل پل تڑپتا مگر کھل کر نہ والد سے مل سکتا اور نہ ہی ان کی خدمت کر پاتا اور یوں ایک دن والد بھی جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

بس یہ دکھ لڑکے کے کلیجے کو چمٹ گیا۔ وہ سگے والدین کی موت کو کبھی بھلا نہ سکا اور اس کے اندر کے پچھتاوے جب حد سے بڑھے اور والدین کی بیماری اور موت یاد آتی تو وہ بہت روتا۔ چیخیں مارتا، عجیب پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا اور ایک دن صبر کا پیمانہ جب چھلکا تو خودکشی کرکے اماں بانو کی ضد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مات دے گیا۔

اماں بانو اکیلی رہ گئیں اور لڑکے کو ماں باپ سے دور رکھنے اور اُس کی خودکشی کے بعد باقی رشتہ داروں نے بھی اماں بانو کو ہمیشہ کے لے خیرباد کہہ دیا۔ سب کہتے کہ یہ پتھر دل عورت اکیلے ہی رہنے کے قابل ہے۔ جس کو اپنے پالے ہوئے لڑکے پر بھی ترس نہ آیا اور اُس کے اندر کی تکلیف اور اذیت پر مرہم رکھنے کی بجائے اُس بیچارے کے دامن میں پچھتاوے ڈالتی رہی۔

سب یہی کہتے ہیں کہ اماں بانو اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے۔ والدین کو ان کے جگر اُن کے خون سے جدا رکھا۔ لڑکے کو بیماری اور موت کی قریبی حالت میں بھی اپنے والدین سے نہیں ملنے دیا۔ شاید قدرت کو بھی یہ بات بری لگ گئی اور اِسی لیے اماں بانو کی جھولی میں اِس پچھلی عمر کے لیے تنہائی ڈال دی۔

میں تو اللہ سے معافیاں مانگ مانگ کر اماں بانو کی خدمت کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ اماں بانو کو آخرت میں معاف فرما دے اور دنیا میں کیے جرموں کی سزا نہ دے مگر پھر ڈر بھی جاتی ہوں کہ خدا اپنے گناہ تو معاف کر دے گا مگر وہ حقوق العباد کے گناہوں کے سزا، اُس کا کیا بنے گا؟

بس پُتر۔ تو بھی دعا کرنا کہ اللہ سب بہتر کرے کیونکہ اولاد اور والدین کا دکھ جانیں نگل جایا کرتا ہے۔

Check Also

Police Muqable Ka Tashweesh Naak Pehlu

By Hameed Ullah Bhatti