Adakar Talat Hussain Marhoom Aur Aik Recording Ka Qissa
اداکار طلعت حسین مرحوم اور ایک ریکارڈنگ کا قصہ
طلعت حسین صاحب کے انتقال کی خبر سنی تو مجھے اپنے کیرئیر کے ابتدائی دن یاد ا گئے۔ ہمارے ایڈورٹائزنگ کیریئر کا آغاز 1988 میں ہوا۔ پہلی ملازمت سے ایک ہفتہ کے بعد یہ کہہ کر نکال دیئے گئے کہ آپ اس تخلیقی کام کے قابل نہیں۔ میں اس ایجنسی کے مالک کی بالغ نظری کو داد دیتا ہوں کہ جس نے میری ناکارگی کو ایک ہفتہ میں جانچ لیا۔
یہ تو اچھا ہوا کہ وہ جلد ہی یہ فیلڈ چھوڑ کر مجھے اوپن فیلڈ دے گئے ورنہ میرا کیریئر بلکہ ہم جیسے مڈل کلاسیوں کا تو سیدھا سیدھا ٹفن کیریئر کہہ لیں، زیادہ دن چلنے والا نہیں تھا۔ یہاں سے بے آبرو ہو کر نکلے تو ایک اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی جا پہنچے۔ پچھلی ایجنسی میں ہماری حیثیت ٹرینی کاپی رائٹر کی تھی۔ یہاں آئے تو اللہ جانے ایم ڈی صاحب نے ہم میں ایسے کیا گن دیکھے کہ ایک دن ہمیں بلایا اور کہا: "آج کلائنٹ سے اس کی ایک پروڈکٹ کی بریف لینی ہے"۔
خیر یہ ایک طویل قصہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کا پہلا ٹی وی کانسپٹ کلائنٹ سے کیسے منظور کرایا۔ ہم آفس پہنچے اور اپنی کامیابی کا جھنڈا ایم ڈی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ بہت خوش ہوئے، بولے: "تم تو بڑے کام کے آدمی ہو۔ تمہارے خیال میں کس کی وائس اوور (پس پردہ آواز) ہو؟"
ہم کسی وائس اوور آرٹسٹ کو نہیں جانتے تھے۔ اداکار طلعت حسین کی آواز کے ہم شروع سے دیوانے تھے اور ویسے بھی 80 کی دھائی میں وہ شہرت کے نصف النہار تھے۔ ہم نے ان کا نام لے دیا۔ ایم ڈی صاحب نے ہمارا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا:
ارے واہ تم نے بالکل صحیح نام لیا۔ طلعت حسین کی آواز بالکل موزوں رہے گی۔ میں ان سے ریکارڈنگ کا وقت لیتا ہوں۔
یہاں میں نے ایم ڈی صاحب سے درخواست کی کہ سر آپ کا ریکارڈنگ پر ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ مان گئے۔ ہم جانتے تھے کہ ہم نے ریکارڈنگ اسٹوڈیو کی شکل نہیں دیکھی تھی اور ہماری کیا اوقات کہ ہم اور وہ بھی۔۔ طلعت صاحب کو بتائیں کہ کیسے بولنا ہے؟
ایم ڈی صاحب نے طلعت صاحب سے بات کی اور سہراب گوٹھ سے ذرا آگے انٹرنیشنل اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ طے پائی۔ یہ وہی اسٹوڈیو تھا جسے ہم نے صرف باہر سے ہی دیکھا تھا۔ طلعت حسین صاحب رات 9 بجے کے آس پاس انٹرنیشنل اسٹوڈیوز پہنچ گئے۔ انہیں کمرشل دکھا کر ٹائمنگ کے لحاظ سے آڈیو کرائی گئی تاکہ با آسانی کمرشل پر بٹھا دیا جائے۔ طلعت حسین صاحب نے دو تین Takes میں کام مکمل کردیا۔ دل چاہ رہا تھا وہ بولتے ہی رہیں۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ہمیں اپنے لکھے پر پیار آیا۔ اس میں سارا کمال طلعت حسین صاحب کی آواز کا تھا۔
بولتے رہنا کیونکہ تمہاری باتوں سے
لفظوں کا یہ بہتا دریا اجھا لگتا ہے
ہم خاموشی سے ایک کونے میں دبکے کھڑے رہے۔ ہماری خوشی کے لئے یہی بہت تھا کہ ہمارا لکھا طلعت حسین صاحب اپنی کھنکتی شہرہ آفاق آواز میں ادا کر رہے ہیں۔ ہم تو یہ بھی نہیں چاھتے تھے کہ ایم ڈی صاحب ہمارا تعارف کراتے وقت یہی نہ کہہ دیں کہ یہ آڈیو ہم نے لکھی ہے۔ امکان یہی تھا کہ ہم خوشی کے مارے کہیں رو ہی نہ پڑیں لیکن ابھی ایک رونا آگے کھڑا تھا۔ اتفاق دیکھیں کہ آڈیو ریکارڈسٹ محمد علی ہمارے محلہ کا ہی رہنے والا تھا۔ طلعت حسین صاحب اسے پہلے سے جانتے ہیں۔ طلعت حسین صاحب وہاں ریکارڈنگ کے لئے آتے رہتے ہوں گے۔ اب آتے ہیں اصل رونے کی طرف، طلعت حسین صاحب کے جانے کے بعد جب کمرشل پر آڈیو بٹھانے لگے تو پتہ نہیں محمد علی سے کون سا بٹن دب گیا کہ آڈیو ہی غائب ھو گئی۔ محمد علی نے بہت ہاتھ پیر مارے مگر آڈیو ہاتھ نہ آئی۔
دوسرے دن کمرشل کو پی ٹی وی کے سنسر بورڈ سے منظور ہونا تھا۔ پی ٹی وی پر کوئی اشتہار سنسر ہوئے بغیر نہیں چلتا۔ ایم ڈی صاحب کا پارہ چڑ چکا تھا۔ کوتاہی، غلطی کچھ بھی کہہ لیں محمد علی کی تھی۔ طلعت حسین صاحب کی رہائش شارع فیصل پر عائشہ باوانی کالج کے سامنے والی بلڈنگ میں تھی۔ اب مسئلہ یہ کہ رات گئے انہیں دوبارہ بلائے کون؟ یہ فریضہ محمد علی کے ذمہ آیا۔ موبائل فون تو تھے نہیں۔ گھر فون کیا۔ معذرت کی اور دوبارہ آنے کا کہا۔ طلعت حسین صاحب نے پروفیشنل ازم کہہ لیں یا لحاظ کسی پس و پیش سے کام نہ لیا اور آدھے گھنٹے میں دوبارہ اسٹوڈیو آگئے۔ بس آتے ہی پیار سے محمد علی کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور کہا: شریر۔ میرے دل میں ان کی عزت اب ایک اداکار سے زیادہ شریف النفس اور خوش دلی سے غلطی معاف کر دینے والے انسان کی ہوگئی۔ دوبارہ ریکارڈنگ اسی انہماک اور پروفیشنل ازم کے ساتھ کرائی اور اپنی مخصوص دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ملا کر چلے گئے۔ اسٹوڈیو سے تو وہ چلے گئے مگر میرے دل میں ایک اچھے انسان کے طور پر ہمیشہ کے لئے بس گئے۔
ممکن ہے طلعت حسین صاحب کو یہ چھوٹا سا واقعہ یاد نہ ہو لیکن میرے لئے تو یہ بڑے قصوں میں آتا ہے۔ دو تین سال پہلے ایکٹرز اسٹوڈیوز کراچی (ASK) کی جانب سے "سنو کہانی" کے عنوان سے اردو کلاسک ادب پڑھا گی۔ اس پروگرام کی ریہرسل اور پروگرام کے دن کافی دیر ان کی گفتگو میں دیگر افراد کی طرح میں بھی شریک سماعت رہا (بولنے کا یارا کس کو ہے)۔ اس پروگرام کی اسکرپٹنگ اور کمپیئرنگ میرے ذمے تھی۔ میرے ساتھ کو۔ ہوسٹ منزہ موتی والا تھیں۔ میں نے اس تمام عرصہ میں طلعت حسین صاحب سے اپنے پہلے ٹی وی کمرشل کی کوئی بات نہیں کی۔ غالب امکان ہے کہ وہ بھول چکے ہوں گے لیکن میں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں طلعت حسین صاحب کو۔ ویسے بھی آپ ان سے ملیں تو سمجھ لیں آپ ایک بڑے اداکار کے ساتھ ایک وسیع المطالعہ دانشور سے ملنے جا رہے ہیں۔
آدمی آدمی سے ملتا ہے۔۔
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے