Singapore Main Pakistanion Ki Mulazmat, Imkanat o Mushkilat (2)
سنگاپور میں پاکستانیوں کی ملازمت، امکانات و مشکلات (2)
سوال یہ بھی ہے کہ S-Pass کی کم از کم تنخواہ 3150 ڈالر بظاہر پاکستانی روپے میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ روپے ماہانہ بہت پرکشش لگتی ہے۔ لیکن کیا سنگاپور میں اپنے اخراجات پورے کرکے گھر بھیجنے کے لئے کافی ہوگی؟ بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ تنہا نوجوان کسی کے ساتھ شیئرنگ فلیٹ میں کمرہ لے کر تو شاید بمشکل اگر ایک ہزار یا 500 ڈالر بچا سکے تو ایک یا دو لاکھ روپے ماہانہ بھیج سکتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ کورونا کے دوران تقریباً ایک سال تک تعمیراتی سرگرمیوں کے معطل ہونے کی بناء پر رہائشی کرائے تقریباً دوگنے ہو چُکے ہیں۔
اسی طرح E-Pass کے حامل افراد جن کی تنخواہ 6000 ڈالر ماہانہ کا مطلب ساڑھے بارہ لاکھ پاکستانی روپے اس تنخواہ میں باآسانی اپنا گزارا اور گھر پیسے بھیجنا تو ایک آرام دہ زندگی گزار سکتا ہے لیکن اگر فیملی کو ساتھ رکھنا چاہے تو معاملات مشکل ہو جائیں گے۔ یہاں پر فیملی کے ساتھ رہنے کی صورت میں بجائے کمرے کے پورا فلیٹ کرائے پر لینا پڑے گا۔ جو کم از کم تین ہزار ڈالر ماہانہ ہوگا۔ اس کے ساتھ اگر بچے اسکول جاتے ہوں تو غیر ملکی طلباء کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ چھ ہزار ڈالر کی تنخواہ میں گھر کے کرائے کے ساتھ ساتھ بچوں کی فیسیں دینا محال ہے۔
یہ چھ ہزار ڈالر تو ابتدائی تنخواہ کم سہی لیکن بعض شعبوں (بینکنگ آئی ٹی) میں ترقی کے ساتھ ساتھ تنخواہیں دس بارہ ہزار بھی مل سکتی ہے۔ میں نے E-Pass کے حامل افراد کو 20/25 ہزار تک کی تنخواہ تک لیتے دیکھا ہے۔ انہیں یہ مسائل پیش نہیں آتے۔ اس لحاظ سے 6000 ڈالر کی تنخواہ انتہا نہی، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
تنہا یا نو بیاہتا جن کے بچے نہ ہوں یا بہت چھوٹے ہوں اگر E-Pass پر آتے ہیں تو ان کے لئے آسانی ہے کیونکہ یہاں پر بچوں کا چھ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں داخلہ کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے اسوقت تک پرمننٹ ریزیڈینس اگر ملنی ہو تو یہیں رُک جائیں۔ ورنہ اس وقت تک کسی اور ملک کی باقائدہ امیگریشن لیکر منتقل ہو جائیں گے (یہاں سے آسٹریلیا کی امیگریشن کا رجحان ہے)۔
جہاں تک تنخواہوں کے مقابلے میں اخراجات کی بات ہے۔ سنگاپور میں مہنگی ترین چیز رہائش ہے۔ اس کے علاوہ غذا ٹرانسپورٹ اگر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ایک آدمی پندرہ، بیس ڈالر روزانہ با آسانی گزارا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی انفرادی لائف اسٹائل پر منحصر ہے۔ فیملی کے ساتھ یقیناََ اخراجات زیادہ ہوں گے لیکن گھر میں پکانے میں مجموعی اخرجات کم ہو جائیں گے۔
اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ایس پاس S-Pass اور E-Pass یعنی ایمپلائمنٹ پاس کے حامل افراد چند سال کام کرنے کے بعد پرمننٹ ریزیڈینس یعنی PR کے لئے درخواست دینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک PR کا معاملہ ہے کسی کو نہیں پتہ کہ کس بنیاد پر دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو بظاہر انتہائی کوالیفائیڈ اُمیدوار کو بھی مسترد کر دیا جاتا ہے۔
بلکہ میرے ایک دوست جو کہ بیس سالوں سے E-Pass پر ہیں لیکن انہیں PR نہیں ملتا ان کے بارے میں سنگاپور کے وزیراعظم کا سفارشی خط بھی کام نہ آیا، اُلٹا ان سے پوچھ گُچھ کی گئی کہ وہ وزیراعظم تک پہنچ کیسے گئے۔ بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہاں پر مکمل قانون کی پابندی کرنے کی کوشش کریں، کسی قسم کے ایکٹوزم سے دور رہیں تاکہ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے آپکے نام پر سُرخ نشان نہ ہو۔
کسی معاملے میں آپ سے پوچھ گچھ چاہے بےگناہ ثابت ہو جائیں پھر بھی کہیں نہ کہیں آپ کے ریکارڈ میں ڈوبی ہوئی لاش کی طرح تیرتی رہتی ہے وہ PR اور شہریت کی درخواستوں کے مسترد کرنے کا بہانہ (یہاں امیگریشن و شہریت کے معاملات میں وجہ نہیں بتائی جاتی اور نہ ہی عدالتی کاروائی ممکن ہے)۔ سنگاپور میں پی آر PR لینا اور اس کے چند سالوں کے بعد شہریت لینا دونوں مراحل دنیاوی پُل صراط سے گزرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ جن خوش قسمتوں کو پی آر مل جائے تو درحقیقت اس بات کی پہلی علامت ہے کہ اس ملک نے آپ کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے اور زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
پی آر زندگی بھر کے لئے ہوتا ہے، بشرطیکہ کسی وجہ سے منسوخ نہ ہو جائے (ایسا کم ہوتا ہے پر) ممکن ہے۔
کرائے پر رہنے کی بجائے اپنا ذاتی گھر خریدنا آسان ہو جاتا ہے (رہائشی جائیداد کی خریداری پر PR کو جائیداد کی قیمت کا 5 فیصد اضافی اسٹیمپ ڈیوٹی دینی پڑتا ہے جبکہ غیر ملکی افراد کو 30 فیصد)۔ بچوں کی تعلیم و داخلے میں ترجیح مل جاتی ہے اسکولوں کی فیسیں بھی غیر ملکی افراد کی بہ نسبت کم ہوتی ہیں۔ سرکاری پرائمری اسکول میں PR بچے کی فیس 255 ڈالر ماہانہ ہے سیکنڈری اسکول میں 500 اور کالج میں 580 ڈالر ماہانہ دیتے ہیں۔
جبکہ غیر ملکی کارکنان کے بچوں کو پرائمری اسکول کے 875 ڈالر ماہانہ دینا پڑتی، سیکنڈری اسکول میں 1750 اور کالج میں 2100 ڈالر ماہانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ بھی اس صورت میں جب ان کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلے مل جائیں۔ کیونکہ سرکاری اسکول میں داخلے کی پہلی ترجیح شہری و پی آر بچے، اس کے بعد بھی اگر اسکولوں میں جگہ بچے تب ہی غیر مُلکی کارکنان کے بچے داخل ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں انتہائی مہنگے پرائیوٹ اسکولوں میں داخل کرانا پڑتا ہے۔ جس وجہ سے بعض لوگ مجبور ہو کر بچوں کی تعلیم کے لئے انہیں پاکستان منتقل کر دیتے ہیں۔
پی آر PR کے بارے میں اہم بات یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام اہل خانہ کو PR مل جائے، ابتدائی درخواست جس میں تمام اہل خانہ کے ساتھ دی جاتی ہے اس میں قبولیت اور رد کا فیصلہ ایک ہی ہوتا ہے، لیکن PR ملنے کے بعد شادی یا بچوں کی پیدائش کی صورت میں ہر ایک کے PR کی انفرادی درخواست دینی ہوتی ہے۔ اس بات کا پورا امکان ہے نامعلوم وجوہات پر بیوی یا کسی بچے کا پی آر مسترد ہو جائے۔ میرے ایک شناسا کے پاس پی آر ہے لیکن اس کی اہلیہ و بچوں کی درخواست رد کر دی گئی۔
نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود تو سنگاپور میں ملازمت کر رہا ہے لیکن اہلیہ و بچوں کو سرحد پار ملائشیا میں رکھا ہوا ہے۔ سنگاپور کی سرحد سے ملائشیا کے شہر جوہور بہارو کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا روالپنڈی و اسلام آباد کے درمیان لیکن سفر کرنے میں فاصلہ تو ایک کلومیٹر کا ہے لیکن چونکہ روزانہ صبح شام لاکھوں افراد دونوں ممالک کے درمیان سفر کرتے ہیں اس لئے امیگریشن و کسٹم میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
اتنی خوفناک تصویر کے باوجود اگر کوئی پھر بھی سنگاپور میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے تو اسکے لیے کیا مشورہ ہے؟
سب سے پہلے اپنی صلاحیتوں کو چمکانے کے لئے درست جگہ ملازمت و تجربہ حاصل کریں۔ جسے آپ سنگاپور جیسے مسابقتی اور پروفیشنل ماحول میں نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دے سکے بلکہ آپکو ممتاز بھی کر سکے۔