Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Singapore, Corruption, Scandal

Singapore, Corruption, Scandal

سنگاپور، کرپشن، اسکینڈل

گذشتہ صدی کی کامیاب اقوام کی داستانوں میں سنگاپور سرفہرست ہے جس کا سہرا بلاشبہ سنگاپور کے بانی وزیراعظم لی کوان یو کے سر ہے۔

یہاں کی جمھوری روایات پر گفتگو کی گنجائش ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاست میں ذاتی دیانت و اخلاقیات ہر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا (اب اخلاقی معیار ہر معاشرے کا اپنا ہوتا ہے، اس لئے بعض معاملات ان کا معیار ہم سے مختلف ہو)۔

لی کوان یو کی مالی اور اخلاقی کرپشن سے نفرت بھی ضرب المثال ہے۔ سنگاپور کی ایجنسیوں کے ہاتھوں 1960 میں گرفتار شدہ امریکی جاسوس کی رہائی کے لئے امریکی حکومت کی جانب سے انہیں رشوت کی پیشکش پر صرف لی کوان یو نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا:

"امریکیوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ جس کے ساتھ معاملات کررہے ہوں اس کا کردار کیسا ہے۔۔ وہ کسی Ngo Dinh Diem یا Syngman Rhee سے معاملہ نہیں (کرپشن کےلئے بدنام اس زمانے کے ویت نام اور کوریا کے حکمران) کررہے ہیں۔۔ ہم اپنے ملک وحکومت کی خرید و فروخت نہیں کرتے"۔

کرپشن کے خلاف جنگ کا اہم ترین ہتھیار یہاں کا اینٹی کرپشن کا ادارہ CPIB ہے جو براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہے۔ اس کے دائرہ اختیار صرف سرکاری اداروں ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے نجی اداروں کی کرپشن بھی شامل ہے۔

نومبر 1986 میں سنگاپور کے وزیراعظم لی کوان یو کو CPIB نے رپورٹ دی کہ ان کے ایک وزیر کے بارے میں کسی ٹھیکیدار سے رشوت لینے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ اس پر لی کوان یو نے CPIB کو کھُلی تحقیقات کی اجازت دیتے ہوئے وزیر کو تحقیقات کی تکمیل تک کے لیے انکی وزارتی ذمہ داریوں سے معطل کردیا۔

اگر تحقیقات کے بعد CPIB وزیر کو بے گناہ قرار دیتی تو وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتے، لیکن کرپشن کی شواہد ملنے کی صورت میں مزید کاروائی کے لئے فائل اٹارنی جنرل کو بھیجی جانی تھی جو اس معاملے کو عدالتی کاروائی شروع کرتے لیکن اس قبل ہی وزیر نے خود کشی کرلی۔

اپنے پارلیمانی بیان میں اس کی خود کشی پر لی کوان یو نے افسوس کا اظہار تو کیا ساتھ میں یہ بھی کہا: "اگر کسی وزیر پر کرپشن کا الزام لگے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے تحقیقات کا سامنا کرنے سے بچایا جائے"۔

کہتے ہیں نا "گُربہ کُشتن روز اوّل" اس واقعے کے بعد اِکّا دُکّا سرکاری و نجی اداروں کے افراد تو کرپشن کے الزام میں پکڑے جاتے رہے اور انہیں سزائیں بھی ملتی رہیں لیکن سیاسی عہدیداران کی کرپشن کا کوئی بھی واقعہ سامنے نہیں۔ بین القومی اداروں کے مطابق سنگاپور دنیا کے پانچ کرپشن سے محفوظ ترین ممالک میں شُمار ہوتا ہے۔

1986 میں اس وقت کے وزیر تعمیرات کے خلاف کرپشن کی تحقیقات اور اس کے نتیجے میں وزیر موصوف کے خودکشی کے تقریباً 37 سال بعد موجودہ وزیراعظم کو حال ہی میں اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب CPIB نے انہیں اطلاع دی کہ کسی اور معاملے کی تحقیقات کے دوران اتفاقاً ان کے کچھ ایسے شواہد لگے جو ان کے وزیر مواصلات ایس اسوارن Iswaran کے خلاف CPIB کرپشن میں ملوث ہیں۔

وزیراعظم لی سن یانگ Lee Hsien Yang جو کہ سنگاپور کے بانی وزیراعظم لی کوان یو کے صاحبزادے بھی ہیں نے نہ صرف CPIB کو فوری طور پر کھلی تحقیقات کرنے کا حُکم دیا بلکہ متعلقہ وزیر کو اپنی ذمہ وزارتی ذمہ داریوں سے رخصت پر جانے کا حُکم دیتے ہوئے باقائدہ پریس کے ذریعے قوم کو آگاہ بھی کردیا۔

تازہ ترین صورتحال کے مطابق وزیرمواصلات ایس اسوارن Iswaran کو تحقیقات کے لیے رسمی گرفتاری کے بعد ان کا پاسپورٹ ضبط کرکے ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ تحقیقات پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔

اس کے علاوہ ماہ رواں میں CPIB کو وزیر قانون اور وزیر خارجہ پر سرکاری بنگلے مبینہ طور پر بازار سے کم کرائے پر حاصل کرنے (یہاں وزیروں کو مفت سرکاری بنگلے نہیں ملتے) کا الزام لگا، جس کی تحقیقات بھی CPIB کو بھیجی گئی تحقیقات کے نتیجے میں CPIB نے دونوں وزیروں کو کسی قسم کی غلط کاری سے بری قرار دیا۔ (اس کے باوجود سرکاری عہدیداروں کو اپنی وزارت سے ذاتی مفاد کی معاملات پر conflict of interest کے طریقہ کار میں مزید سختی کردی گئی۔

حالانکہ ان تینوں معاملات میں کرپشن کا صرف ایک ہی معاملہ ہے باقی اختیارات سے فائدہ اُٹھاکے کم کرائے پر رہائش حاصل کرنے کا الزام تھا جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ اس کے باوجود ایک ماہ میں تین وزیروں کے خلاف اینٹی کرپشن کی تحقیقات ایک تشویشناک امر ہے۔

مالی کرپشن تو پوری دنیا ہی میں جُرم ہوتا ہے، لیکن سنگاپور عوامی نمائندگان کے لئے بلند اخلاقی اخلاقی معیار کو قائم رکھنا بھی لازمی ہے۔ گذشتہ سال ایک خاتون ممبر اسمبلی پارلیمان میں مبالغہ آمیز بیان (یعنی جھوٹ بولنے) کی پاداش میں اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئی۔

اس کے علاوہ چونکہ یہاں دوبالغ افراد کے درمیان باہمی رضامندی کے ساتھ "تعلقات" جُرم نہیں ہیں۔ ایک مخلوط معاشرے میں مرد و عورت کے آزادانہ میل جول کی وجہ سے اس قسم کے واقعات انہونے بھی نہیں ہیں۔

لیکن یہ یہاں کی مضبوط روایات میں شامل ہے۔ کہ کسی بھی سیاستدان یا اسمبلئ کے ممبر کے اس قسم کے معاملات سامنے آنے پر قانونی جُرم نہ ہونے کے باوجود ایسے افراد سے ان کی پارلیمانی ہی نہیں بلکہ تمام عوامی عہدوں سے استعفیٰ لے لیا جاتا ہے۔

اب تک کئی سیاستدان اس حُسن زن کا شکار ہوکر اپنی سیاست سے ہاتھ دھو بیٹھ چُکے ہیں۔

گذشتہ روز وزیراعظم Lee Hsien Loong نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ پارلیمانی اسپیکر Tan Chuan-Jin، حُکمران جماعت کی ایک خاتون اسمبلی ممبر دونوں باہمی "دوستی" کی پاداش میں فوری طور پر اپنی نشستوں اور حکمران جماعت کی ممبر شپ سے مستعفی ہورہے ہیں ایک اور دھماکہ کردیا۔

لیکن اسپیکر تان چوان جِن اور خاتون ممبر اسمبلی کے "تعلقات" کے بارے میں وزیراعظم کا کہنا ہےکہ سب سے پہلے یہ معاملہ 2020 کے عام انتخابات کے بعد سامنے آیا تھا اسوقت پارٹی کے ذمہ داروں نے دونوں سے گفتگو کرکے "سیدھی راہ پر" آنے نصیحت کی تھی۔ انہوں نے بھی وعدہ کیا کہ وہ یہ "تعلقات" ختم کردیں گے۔

چند ماہ قبل فروری 2023 میں وزیراعظم لی کو پتہ چلا کہ وعدے کے بر خلاف ان دونوں کی "دوستئ" برقرار ہے۔ جس پر وزیراعظم لی نے اسپیکر تان سے گفتگو کی اس پر اسپیکر نے اپنی غلطی تسلیم کرکے اسمبلی اور تمام عہدوں سے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی جسے قبول تو کرلیا گیا۔ لیکن ان کے حلقے کے معاملات کے مناسب انتظام کے لیے مناسب وقت تک کے لئے موخر کردیا ہے۔

یہ پہلے اسپیکر نہیں ہے جو "عشق ممنوع" کا شکار ہوئے 2012 پارلیمنٹ کے اسپیکر مائیکل پالمر بھی کسی کی ترچھی نظروں کے ہاتھوں شکار ہو کر اپنی اسمبلی کی نشست کھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ 2016 میں بھی حکمران جماعت کے ایک ممبر اسمبلی جناب ڈیوڈ اونگ بھی حسینوں کے عشق کے شکار استعفی دیکر گُمنامی کی زندگی میں گُم ہو گئے۔

اپوزیشن ورکرز پارٹی بھی 2012 میں اپنے ایک ممبر اسمبلی کا اسی قسم کے معاملات میں اخراج کر چُکی ہے۔ حال ہی میں ورکرزپارٹی کے ایک ممبر اسمبلی اور ایک خاتون کارکن کے ریسٹورنٹس میں کھانا کھاتے ہوئے "انداز محبوبانہ کی ویڈیو گردش کر رہی ہے۔ اور آج اپوزیشن کے بھی دونوں اراکین نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہے۔

اس کے علاوہ ان ہی اسپیکر کی منہ چند ماہ قبل اپوزیشن کے ایک ممبر کی تقریر کے دورابے خیال ایک "نامناسب" تبصرہ نکل گیا جو مائک کے آن ہونے کی وجہ سے نشر ہوگیا۔ اس پر بھی وہ اپوزیشن ممبر سے معافی مانگنے پر مجبور ہوئے۔

درحقیقت سنگاپور کی حکومت نے ان تمام معاملات چاہے وزیر کے خلاف کرپشن کے الزام ہوں یا دو ممبران پارلیمان کے درمیان "افیئر" جو کسی بھی طرح غیر قانونی نہیں لیکن شفافیت کا دامن نہیں چھوڑا۔ پھر بھی ان واقعات کا تسلسل پریشان کُن ہے۔

اس سے عوام کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ حکمران جماعت اپنے اعلی اخلاقی معیار سے نیچے آئی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکمران جماعت کے ممبران پارلیمان مطلوبہ اخلاقی معیار پر پورے اترتے ہیں؟

وزیراعظم Lee Hsien Loong نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا "ہماری جماعت PAP معاملات کو درست کرکے ممبران اسمبلی کے بارے میں سامنے آنے والے حالیہ اسکینڈلز سے بھرپور طریقے سے اور شفافیت کے ساتھ نمٹے گی"۔

اس کی ساتھ ہی انہوں نے اپنے والد سنگاپور کے بانی وزیراعظم آنجہانی لی کوان یو کی آخری تقاریر میں سے ایک کے الفاظ دُھرایے: "یاد رکھّو۔۔ کرپشن کو کسی صورت میں نظام میں سرایت نہیں کرنے دینا۔ اپنے معیار کو کبھی نہ گرنے دینا۔۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ سنگاپور کامیاب رہے"۔

اہم بات یہ ہے کہ حکومتی جماعت کے افراد بارے میں تمام اسکینڈلز کے بارے میں کسی اور نے نہیں بلکہ حکومت نے ہی سب سے پہلے قوم کو آگاہ کیا۔۔ اس لحاظ سے کم از کم شفّافیت کے معاملے میں تو انہیں پورے نمبر دئیے جاسکتے ہیں۔

یقینا وزیراعظم لی کی کوشش ہے کہ شفاف اور بے رحمانہ طریقے سے حکمران جماعت میں پلنے والی زہریلی جڑی بوٹیوں کا آپریشن کلین اپ کر لیں۔۔ لیکن اسپیکرکے "افئیر" کے بارے پہلی 2020 میں علم ہونے کے اعتراف کی وجہ سے ان پر بھی کور اپ کا الزام لگتا نظر آرہا ہے۔

دوسری طرف اہم بات یہ ہے ایک طرف حکمران پارٹی نے اپنے تین اہم ترین وزراء پر بھی کرپشن کے الزامات کے شبہ پر بھی بلا ہچکچاہٹ طور پر تحقیقاتی اداروں کے سامنے پیش کردیا۔ جن میں سے دو بے گناہ ثابت ہو گئے اور تیسرے کے خلاف تحقیقات کی شدت وحدت دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے معاملات گھمبیر ہیں۔

اسی طرح اخلاقی کرپشن کا معاملہ ہے۔ ایک طرف جھوٹ بولنے پر اپوزیشن کی اسمبلی کے ممبر کو استعفی دینا پڑا، دوسرے طرح اپوزیشن و حکمران جماعت دونوں نے اپنے ممبران کی جنسی بے راہ روی کو "ذاتی معاملہ " قرار دینے کی بجائے تسلسل کے ساتھ ایسے افراد کو پارلیمان و سیاست سے نکال پھینکا۔ (یقینا اس معاملے میں اپوزیشن و حکومت نے اپنے متعلقہ افراد سے گفتگو کرکے اصلاح کی کوشش اور وقت دیا جس وجہ سے دونوں پر معاملات چھپانے کی کوشش کا الزام لگ رہا ہے)۔

یہ واقعات متعلقہ جماعتوں کے لئے شرمندگی کا باعث تو ہیں، لیکن جس طرح قوم کے اجتماعی ضمیر (حکمرانوں و اپوزیشن) نے اخلاقی اقدار کی پاسداری کو اہمیت دی ہے وہ ملک و قوم کے مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔

Check Also

Class Mein Khana

By Rauf Klasra