Sazayabi Ke Baad
سزا یابی کے بعد
ہمارے محبوب و مقبول سابق وزیراعظم جناب عمران خان جن کی پوری سیاسی زندگی کرپشن کے خلاف "جہاد" کرتے ہوئے گزری یہ الگ بات ہے جب ان کے دور حکومت میں ان کے چہیتے جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بارے میں امریکہ میں 133 پیزے کے ریسٹورنٹس کا شور مچا تو خان صاحب نے بدہن خود ان کی بے گناہی کی گواہی دی۔ اسی طرح اپنی اہلیہ کے مشکوک مالی معاملات کی رپورٹ کرنے پر اس وقت کے ڈی جی آئی آیس آئی جنرل عاصم منیر کو بیک بینی و دو گوش آئی ایس آئی کی سربراہی سے فارغ کر دیا گیا کہ امانت دیانت کا دورہ یا بھاشن صرف مخالفین کی حد تک ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان سوچ ہی سکتا ہے لیکن اللہ اپنے فیصلے عجب طرح سے کرتا ہے۔ وہی جنرل عاصم منیر جنہیں خان صاحب نے آئی ایس آئی کی سربراہی سے فارغ کیا تھا ان کی مرضی کے خلاف فوج کے سربراہ بن گئے۔ پھر رہی سہی کسر توشہ خانہ و عبدالقادر ٹرسٹ کے معاملات نے پوری کر دی۔ اپنے گھر و چمچوں کے لیے سب کچھ مباح ہے۔ ایک تو اقتدار کے نشے میں اہلیہ و چمچوں کا دولت اکٹھا کرنے کا مشغلہ اپنی جگہ۔ لیکن یہ سوالیہ نشان باقی ہے کہ اہلیہ و چمچوں کے ذریعے اکٹھی ہونے والی دولت کا کھُرا کہاں تک پہنچے گا۔
بینظیر کے دور وزارت عظمیٰ میں بھی پیسے اکٹھے کرنے کا فریضہ وزیراعظم صاحبہ نہیں بلکہ مرد اوّل صاحب انجام دیتے تھے اور عاشقین بھی "یا خدا یا رسول بینظیر بے قصور" نعرے لگاتے رہ گئے۔ یہی حال ہمارے خان صاحب کا ہے کہ کمائی کے سارے کھُرے بشریٰ بی بی سے لیکر فرح گوگی تک، رہی سہی کسر چمچوں نے پوری کر دی ہمارے خان صاحب تو "سہولت کار" ہی بنے ہوئے تھے۔ یہاں بھی عاشقین خان صاحب کی دیانت و ملک و قوم کے لئے خلوص کی قسمیں کھاتے پھرتے ہیں۔ جہاں تک بشریٰ بی بی کے نام سے آنے والی کہانیاں عاشقین کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کہ سوائے جمائمہ کے۔۔
بیویوں کے انتخاب نے رسوا کیا اسے۔
اس سے قبل یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کے حُکم کی نافرمانی کے الزام میں سزایابی ہوئی تھی اور نواز شریف کو اقامے کے لیے بیٹے کی کمپنی سے نہ ملنے والی تنخواہ کو اپنے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے جُرم میں لحاظ سے وہ پاکستان کے پہلے سابق وزیر Black's Law Dictionary کی مدد سے سزایاب و نااہل کیا گیا تھا۔ چور ڈاکو کا شور تو بہتوں کے بارے میں مچا۔ لیکن جناب عمران خان کرپشن کے الزام میں سزایاب ہونے والے پہلے سابق وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ہائے میرا دیانت و امانت کا دیوتا۔۔ اور کرپشن کا مجرم۔
مجھے پاکستانی سیاست کے تینوں بڑے کرداروں (شریف فیملی، زرداری اینڈ کمپنی اور عمران خان) کی امانت دیانت کے بارے میں کوئی خوش اُمیدی نہیں ہے۔ تینوں نے حسب توفیق بہتی گنگا میں اشنان کیا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ساڑے تین سال اشنان کرنے والا تیس سال سے باری باری ڈبکیاں لگانے والے کی بہ نسبتاً کم "گیلا" نظر آتا ہے۔ یہی عمران خان صاحب کا معاملہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فارن فنڈنگ، توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کے معاملے میں عمران خان سے بداعتدالیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن جس پروسیس کے تحت عمران خان کو سزا سنائی گئی ہے وہ اتنا ہی "شفاف" ہے کہ جتنا نواز شریف کو نااہل و سزا دینے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن اس قسم کا لنگڑا لولا و ناقص عدالتی پروسیس درحقیقت ملزم کو ہیرو بنانے کے کام آتا ہے اور بعد میں کسی بھی اپیل کی صورت میں"حسب منشاء" rehabilitation کا راستہ کھُلا رکھنا بھی مقصود ہو سکتا ہے۔ کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد "وہ" بھی قتل کرنے کی بجائے "کولڈ اسٹوریج" میں رکھنے کے قائل ہو گئے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ وقت بدلے گا۔ عمران کی کہانی کا اگلا باب بھی آنا ہے۔ یہ بھی ہماری تاریخ ہے کہ جسے نکالا جاتا ہے اسے کم از کم ایک انتخاب تک "آرام" ضرور کرنا پڑتا ہے۔ سزا کے فوراً بعد پہلا مرحلہ اپیل کا ہے۔ چونکہ لاکھوں اپیلیں سسٹم میں پھنسی ہوئی ہیں تو کیا ان کی اپیل کو فوری سُنا جا سکتا ہے؟ خیر پاکستان میں نظام اشرافیہ کا تابع ہے، اس بات کا بھرپور امکان ہے کہ عمران خان کو بھی اپنی سیاسی و سماجی حیثیت کا فائدہ ہو۔
چونکہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی آئی ایس آئی کی کلئیرنس کے بغیر نہیں ہوتی، پروجیکٹ تبدیلی کے معماران جنرل شجاع پاشا سے جنرل فیض حمید تک کے لئے تمام نہیں تو بڑی حد تک عدالتوں میں نظریاتی طور پر مخصوص سوچ والے ججوں کی تعیناتی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اسلئے اعلیٰ عدلیہ میں خان صاحب سے ہمدردی کی لہر خاصی مضبوط نظر آتی ہے۔ اب "اُنہوں" نے اپنی سائڈ بدل لی ہے، پر ان کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم بھی بھگوان بن گئے۔ اس لئے ماضی کے برعکس "اُنہیں" بھی حسب خواہش فیصلے حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن اب ان کی سسٹم پر گرفت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔ عدلیہ سے کسی بھی انہونی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت عمران انتخابی ہی نہیں پارٹی کی قیادت کے لئے بھی نااہل ہو چُکے ہیں۔ اب اگر اعلیٰ عدلیہ نے فوری ریلیف نہیں دیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی سوائے انتخابی بائیکاٹ کے ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ کسی نہ کسی قابل اعتماد ساتھی جماعت کی قیادت سونپنا ہی پڑے گا۔ انتخابی بائیکاٹ کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو مزید نقصان ہی ہونا ہے۔ اور یہ مشکل سبق عمران خان اسمبلیوں سے استعفیٰ اور توڑ کر بخوبی سیکھ چُکے ہیں۔ اس لئے ان کے مفاد میں یہ ہے کہ پارٹی کسی نہ کسی صورت میں اسمبلیوں میں موجود رہے، اس لئے آئندہ انتخابات میں حصہ لینا ان کی مجبوری ہے۔
یہ سزایابی و نااہلی اس بات کی علامت ہے کہ انتخابات انتہائی قریب ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسوقت عمران خان ملک کا مقبول ترین سیاستدان ہے، اور اسے انتخابی سیاست سے باہر کرنا اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکمران طبقے کی اولین ترجیح ہے۔ یہ بھی واضع ہے کہ نواز شریف کی طرح اب عمران بھی اس سزا کے معطل یا منسوخ ہونے تک پارٹی کی قیادت نہیں کر سکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان نے اس صورتحال کے لئے متبادل قیادت تیار کی ہوئی ہے؟
بطور قوم ہماری عادت ہے کہ احساس عدم تحفظ کے مارے لیڈر جوہر قابل کو دبا کر نااہل ریموٹ کنٹرول والے کھلونوں سے کام چلانا پسند کرتے ہیں اسی وجہ سے خان صاحب نے پنجاب میں عثمان بزدار عرف وسیم اکرم ثانی اور کے پی کے میں میں محمود خان جیسے پلاسٹک کے کھلونوں سے کام چلایا۔
سوال یہ ہےکہ اب جبکہ خان صاحب کی سیاسی زندگی و آزادی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ کیا اب بھی کسی نااہل "وسیم اکرم" سے بالنگ کرائیں گے؟
ایک اور سوال یہ بھی ہے جس طرح افراد کے انتخاب میں عمران خان کا "حُسن انتخاب" ضرب المثال ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ متبادل قائد بھی "اُن" کا پلانٹڈ نہیں ہوگا؟
آئندہ ہونے والے عام انتخابات کی میں بظاہر مسلم لیگ ن کے سر پر ہما نظر آ رہا ہے پر، گاہے گاہے میرے دل میں آتا ہے یہ نازک سا خیال
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔
تحریک انصاف "اُن" کا پروجیکٹ تھا، اگر عمران کسی ایسے "بچّہ جمورا" کو قیادت سونپ دی جو "اُن" کے لئے قابل قبول ہو تو انتخابات میں مکمل دھاندلی کرکے شریفین کو اقتدار میں لا کر اپنانی ذلّت میں اضافے کی بجائے، آئندہ "فری اینڈ فیئر" انتخابات میں تحریک انصاف مائنس عمران خان کو کامیابی دیکر ادارے اپنی عزت بھی بچا لیں اور حسب مرضی "منتخب کردہ" وزیراعظم بھی لے آئیں۔ یعنی۔
سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔