Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Saanp Ne Kenchli Utari

Saanp Ne Kenchli Utari

سانپ نے کینچلی اتاری ہے

کوئی سیاسی جماعت تنقید سے بالاتر نہیں ہے اس کے باوجود جماعت اسلامی کے سابقین دوست جو اب پورے خلوص سے مرید "تبدیلی والا" بن چُکے ہیں کے منہ سے بعض باتیں اچھی نہیں لگتی۔ ان میں کچھ تو ساری حدود پار کرچُکے ہیں وہ تو مریض عشق ہیں ان کی شفا کی صرف دعائیں ہی کی جا سکتی ہیں۔

لیکن بعض دوستوں کی وضع داری سے خوش گمانی تھی ہے اور رہے گی کہ کچھ نہ ہو تو دہائیوں کے ساتھ کا ہی لحاظ و احترام ہوگا۔ اگر واقعتا جماعت میں کرپٹ عناصر کا غلبہ ہے تو اسے چھُپانا بھی ملک قوم کے ساتھ زیادتی بد دیانتی ہے اور خاموشی بھی قومی جُرم ہے۔

یقینا جماعت اسلامی فرشتوں کی جماعت نہیں ہے انسانوں کی جماعتوں و گروہوں میں دو چار دانے نکل ہی آتے ہیں اور جماعت اسلامی میں بھی ہوں گے، لیکن کوئی محرم راز درون خانہ بھی لے دے کر: "سیاست کے بارھویں کھلاڑی، جنکا حال یہ ہے کہ اگر انھیں ریس میں تنہا دوڑنے کا موقع دیا جائے تب بھی آخری نمبر پر آئیں"۔ کا طعنہ ہی دے سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی سیاست کی بارہویں کھلاڑی ہی رہی ہے (کل کیا ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا)، ان کے مہاتما جو2008 تک سیاست کے کھیل کے بارہویں کھلاڑی ہی تھے۔ پھر اللہ نے وقت بدل دیا۔ باقی سب تو بہانے ہیں۔

وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ۔ ہم تمہارے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں۔

جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامیوں کے باوجود کم از کم جماعت کے کارکنان کو اخلاقی و مورال کمپرومائیز نہیں کرنا پڑتا۔ اس لئے ہمارے اُن دوست کو یہ طعنہ دینا نہیں بنتا۔ جماعت اسلامی کی 75 سالہ تاریخ میں فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جماعت اسلامی کی قیادت و کارکنان نے مالی مفادات کے لئے فیصلے کئے۔

یہاں تو پوری سیاست کی دوکان ہی صرف اور صرف status quo (نواز و زرداری اس میں مولانا بطور چھوٹی بُرائی) سے نفرت کے نام پر چلائی گئی۔ اس میں اسٹیبلشمنٹ کے نام کے "شیطان عظیم" کی بانہوں میں جھولے لیتے رہے۔ پھر احساس ہوا کہ اصلی شیطان تو کوئی اور ہے۔ اس میں وہ خود، بلکہ نواز و زرداری بھی حسب ضرورت "شیطان عظیم" کے اوزار کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔

استعمال ہونے والوں میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے لیکن فرق اتنا ہے باقی قیمتا استعمال ہوتے تھے اور یہ حُسن ظن میں مارے جاتے رہے۔ مشرقی پاکستان سے لیکر کشمیر و افغانستان تک قربانیوں کی داستان، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ إنما الأعمال بالنيات۔۔ یہاں اجتہادی غلطیوں کی حدتک ہے اس کی قیمت آج تک بنگلہ دیش کے زندانوں میں پھانسی کے پھندوں پر مسکراتے ہو لٹکنے والوں سے پوچھیں۔

قرض دل کیا قرض جاں بھی آج چکتا کر دیا

قافلہ عشق تبدیلی کا سفر کرپشن، نوازشریف، زرداری و مولانا فضل الرحمن سے نفرت سے شروع ہوا۔۔ کرپشن و مالی بے قائیدگیوں سے نفرت کو فرح گوگی، عثمان بزدار، و توشہ خانہ کھا گیا کہیں کہیں مقدس امّاں"گُلابی بیگم" کا بھی نام نامی سامنے آجاتا ہے۔

پر ایک بات ضرور ہے کہ بینظیر بھٹو کے بھی پہلے دور حکومت میں محترمہ کے ہاتھ صاف ہی رہتے ساری wheeling and dealing ان کے پی اے یا شوہر نامدار آصف علی زرداری کیا کرتے تھے۔ اسی لئے انہیں مسٹر ٹین پرسینٹ کہا جاتا تھا اور بی بی کے لئے جیالے "یا خدا یا رسول بینظر بے قصور" کے نعرے لگاتے رہتے تھے۔ یہاں بھی سارے کارنامے جس کے بھی ہوں پر "مہاتما" کے نام کی پوترتا ہے۔

باقی بچی نفرتِ شریفین، زرداری و مولانا فضل الرحمن بچی، جن کی طرف مسکرا کر دیکھنا بھی لحم خنزیر کے، مترادف ہوا کرتا تھا، مولانا فضل الرحمن اس اقتدار کی کھیل میں اپنے حصے کی (شرعی و غیر شرعی) بوٹی وصول کرنے کی حدتک طفیلی ہی رہتے تھے، بینظیر و مشرف سے لیکر نواز شریف و زرداری تک۔۔ گاڑی کے ڈرائیور نہیں زیادہ سے زیادہ فرنٹ سیٹ پیسنجر ہی رہے ہیں۔

اس لئے کسی بھی صورت میں بڑے ملزم تو بن ہی نہیں سکتے اور انہیں ہر صورت میں ان دونوں (شریفین و زرداری) کی بہ نسبت "چھوٹی بُرائی" ہی سمجھا جاسکتا ہے، (ویسے تو چونکہ نواز شریف پنجاب میں ہی مقابلہ کرسکتا ہے اس لئے کیا پتہ وقت کے ساتھ ساتھ زرداری نہ سہی تو بلاول کو بھی چھوٹی بُرائی سمجھ کر قبول کرلیا جائے۔

دیکھو کس کا نصیب بدلے گا

سانپ نے کینچلی اتاری ہے

کینچلی بدلنے کا عمل ممکن ہے پہلے ہی خاموشی کے ساتھ جاری ہوگا لیکن عوامی طور پر اس وقت سامنے آیا جب میڈیا پر تحریک انصاف کے ایک وفد کی بظاہر (اڈیالہ کے مہمان) اعلیٰ ترین قیادت کی اجازت سے مولانا فضل الرحمن کی خوش دامن کی تعزیت کے لئے حاضری کے خبریں شائع ہوئیں۔ کچھ بھی ہو یہ روایتی سیاست کی طرف واپسی اور کم از کم مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جمی ہوئی برف پگھلنے کی ابتدا ضرور ہے۔ اس سے آگے کیا ہوگا اس کے بارے میں راوی خاموش ہے اور "ہنوز دلی دوراست" بھی۔

درحقیقت سیاست ہویا معاشرت میں مخالفین کے نظریات سے اختلاف کیا جاتا ہے پوری دنیا میں ذاتی اور سماجی روابط رکھے ہی جاتے ہیں۔ اگر یہ بات "مہاتما" کو 2018 میں سمجھ میں آجاتی تو بجائے ایم کیو ایم جیسوں کو جن کے ہاتھ ان کی جماعت کی خاتون لیڈر زہرہ شاہد کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں"نفیس لوگ" کا تمغہ دینے کی بجائے مولانا فضل الرحمن کو ان کاحصہ دے کر ایک بہتر اور مستحکم حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے اور شاید آج کے مسائل بھی کم ہوتے۔

یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اپنے حامیوں کی ذہن سازی کرکے ان کے لیے اس عمومی سیاسی و معاشرتی عمل کو بھی نفرت کا نشان بنا چُکی ہے۔ اب یہ پیش کی جانے والی چاہے علامتی ہی سہی شاخ زیتون ان کے لیے اپنے بیانئے سے یوٹرن کے مترادف دیکھی جائے گی۔

اس سے قبل جب ان کے غیر سیاسی روئیوں کی بات ہوتی تھی تب بھی عاشقین کو روایتی سیاستدانوں سے اتنا متنفر کردیا گیا تھا کہ ان کا غیر سیاسی ہونا بھی ان کی "ادا" ٹہری رھی جس پر عاشقین نے ہمیشہ "پیار" کیا۔

سارا مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب نے عاشقین کو اپنے "نہ جھُکنے والے" امیج کا اتنا یقین دلا دیا کہ باقی معاملات و فیصلوں میں یوٹرن کو قبول کرلیا۔ لیکن ان کی پوری مہم کیا سیاست ہی مولانا فضل الرحمن، نواز و زرداری کی سیاست بلکہ ذات سے نفرت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اس لئے ان میں سے کسی کے ساتھ رسمی تعلق بھی مشکل سے ہضم کیا جائے گا۔ مخالفین اس کا مضحکہ تو اُڑائیں گے ہیں۔ شاید حامیان میں بھی تھوڑی سی مایوسی ہوگی۔

اب خان صاحب آہستہ آہستہ سیاستدان بنتے جارہے ہیں۔ اور یقینا سیاسی طور پر یہ درست اقدام ہے پر اس کے نتیجے میں وہ اپنی مارکیٹنگ کی edge کا بہرحال سے کسی حدتک نقصان اُٹھائیں گے۔ اس کے باوجود مارکیٹ پر تو اجارہ حاصل کر چُکے ہیں اپنی عصبیت قائم کر چُکے ہیں مستقبل قریب میں وہ کہیں جانے والی نہیں ہے۔ تھوڑے بہت گاہک اُدھر اُدھر ہوتے بھی ہیں تو قابل برداشت نقصان ہوگا۔

د یکھنے والی آنکھوں کو اس (قافلہ تبدیلی کے) پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آرہے تھے، کہ نظریات کا تو نام نہاد چولہ پہنا کر سارا مسئلہ ایک سحرانگیز لیڈر شپ کا عشق، چاہے کلٹ کہیں یا فین کلب۔ جسے تسلیم نہ کرتے کرتے آج شوشل میڈیا کے چوراہے پر اعلان و اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔

جس طرح عشق خان صاحب کی عصبیت عاشقان کے دل و دماغ میں راسخ ہو چُکی ہے اسی طرح مولانا فضل الرحمن، نواز شریف و زرداری سے نفرت بھی ان کے"سیاسی" ایمان کا حصہ بن چُکی ہے۔ اور یہاں سی یوٹرن کچھ نہ کچھ مشکلات کا سبب تو بنے عشق کی شدت و حدت دیکھتے ہوئے قابل برداشت حدتک ہی رہے گا۔

بنیادی بات صرف اتنی ہے کہ بطور کاروباری شخص کے جب ہم کسی وینچر میں بہت زیادہ کیپیٹل انویسٹ کردیتے ہیں تو اس کو رائٹ آف کرکے آگے بڑھنا مشکل بن جاتا ہے۔ یہی رویہ عاشقین کا بھی ہوتا ہے کہ کسی کے عشق میں اپنا بہت زیادہ وقت، توانائی اور ایموشنل انویسٹمینٹ کے بعد وہاں سے چھوڑ کر نکل جانا تقریباً ناممکن بن جاتا ہے۔ یہئ رویہ صرف تحریک انصاف نہیں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے زندگی بھر کے کارکنان میں نظر آتا ہے۔

موجودہ بدلتی ہوئی صورتحال میں ہمارے ایک غالی عاشق دوست کی وال preemptive اسٹرائیک کی طرح بدلتے ہوئے موسم کی نشاندہی کررہی ہے۔ جس میں نظریاتی چولہ اتار کر صرف کسی کے عشق کے گھنگھرو باندھنے کا اعتراف کرلیا ہے۔

"پہلے عمران کو تبدیلی کا ووٹ ملا تھا، اس بار عشق، محبت و ضد کا ووٹ ملے گا۔۔ ان شاء اللہ"

"ناصرف فضل الرحمن بلکہ نواز شریف سے بھی ملنا چاہیئے۔ یہ سب ایک ہی کمپنی کے ڈسے ہوئے ہیں"۔

"آئین کی عمل داری اور جمہوریت کی بقاکے لیے سیاسی قوتوں کا گریٹر الائنس بہت ضروری ہے۔ پی ڈی ایم کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے سیاستدانوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ کمپنی نے ان کی تھوڑی بہت ساکھ بھی اپنے قدموں تلے روند دی ہے"۔

یہ ان کی وال پر حالیہ چند پیغامات ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر "مہاتما" نے یوٹرن کرلیا تو یہ بھی اتنے ہی خشوع وخضوع سے یوٹرن کرکے ایک بار پھر جنگ کے نقارے بجانے لگیں گے۔ بیچارے عاشق پھر دوبارہ جنگ کے نقارے بجانے لگیں گے۔ عاشق نہ ہوئے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے کھلونے ہو گئے۔

چلیں عارضی ہی سہی کچھ نہ سہی تبدیلی کے اس سانپ کے جسم سے نام نہاد نظریاتی کینچلی تو اتری۔۔

میں اندر سے کہیں تبدیل ہونا چاہتا تھا

پرانی کینچلی میں ہی نیا ہونا تھا مجھ کو

ظفر اقبال

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed