Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azam Ali
  4. Jadeed Dunya Khawateen Ki Mulazmaten Aur Hybrid Tareeqa Kar

Jadeed Dunya Khawateen Ki Mulazmaten Aur Hybrid Tareeqa Kar

جدید دنیا خواتین کی ملازمتیں اور ہائی بریڈ طریقہ کار

دنیا کے ترقی یافتہ و ترقی پزیر ممالک کی انجمن جی 20 کو دیکھا جائے تو ان کے اٹھارہ ممالک کے اعدادو شمار کے مطابق مجموعی طور ان کی 53 فیصد خواتین پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ جن میں آسڑیلیا کی 62 فیصد، کینیڈا و چین کی 61 فیصد خواتین برسرروزگار ہیں۔ سنگاپور میں بھی 62 فیصد خواتین برسرروزگار ہے۔

اس کے باوجود 35 لاکھ کی مقامی آبادی والا سنگاپور تقریباً 15 لاکھ بشمول گھریلو خادماؤں، تعمیراتی و جہاز سازی مزدوروں سے لیکر پروفیشنل ڈاکٹرز و انجینئروں اور دیگر اعلی صلاحیتوں کے حامل غیرملکی کارکنان پر انحصار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ پر بیرونی ملک کے تارکین وطن کے سیلاب کے دروازے کھولنے کی بہ نسبت اپنی افرادی قوت کے موجودہ سرمائے (خواتین) کو میدان عمل میں لانا ان کی ترجیح ہے اور مجبوری بھی۔

ترقی یافتہ اور تیزی سے ترقی پذیر معاشروں میں خواتین کی ملازمت کا تناسب زیادہ ہونے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں کو اپنے ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے افرادی قوت کی شدید ضرورت رہتی ہے۔

اگر ان ممالک کی خواتین معیشت و پیشہ ورانہ سر گرمیوں سے دستبردار ہو کر روایتی گھریلو ذمہ داریوں تک محدود ہو جائیں تو ان کی معیشت دھڑام سے گِر جائے گی۔ اس لئے ان ممالک کی حکومتوں کے لیے بنیادی چلینج یہی ہے کہ روزگار کی سرگرمیوں کو گھریلو زندگی کے لئے آسان بنایا جائے۔

ترقی یافتہ و ترقی پزیر ممالک کے لئے غریب اور کمزور معیشت والے ممالک سے غیر ملکی افرادی قوت لانے کی اپنی محدودات ہوتی ہیں، اس کے اپنے سماجی مسائل ہوتے ہیں جن میں شھریوں کی تیزی بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اور مقامی باشدوں اور غیر ملکی کارکنان کے درمیان ملازمتوں و دیگر وسائل میں مسابقت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ کی وجہ امن و امان کے مسائل سے نمٹنا بھی بڑا چیلنج ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں کسی بھی حکومت کی بنیادی ترجیح اپنے شھریوں کو جنسی تفریق کے بغیر بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے لئے تیار کرنی ہوتی ہے تاکہ چاہے مرد ہو یا عورت ملک میں موجود افرادی قوت کو ملک کی ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان معاشروں میں خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں مصروفیت کا نتیجہ شرح پیدائش میں تشویشناک کمی کی صورت میں نکل رہا ہے جس کے نتیجے میں ان قوموں کے مستقبل کے ہارے میں پریشان کُن سوالیہ نشان پیدا ہورہے ہیں۔

چین نے کئی دہائیوں تک فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی نافذ رکھی، لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے معاشی حالات نے انہیں اس پالیسی کو ترک کرنے پر مجبور کردیا۔ سنگاپور بھی دوبچے کی پالیسی کو لیکر چلتا رہا اور پھر تین اور چار بچوں پر آگیا۔ جاپان پہلے ہی کم شرح پیدائش کی وجہ سے پریشان ہے۔ اس صورتحال میں ان معیشتوں کے لئے واحد راستہ یہی رہ جاتا ہے کہ اپنی خواتین آبادی کو معاشی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے آسانی پیدا کریں۔

ایسا ممکن ہی نہیں کہ خواتین وحضرات کے معاشی مصروفیات میں مشغول ہونے کے نتیجے میں گھریلو زندگی کا توازن قائم رہے۔ اس لئے بعض اداروں نے اپنے ملازمین کے لئے دفاتر و کارخانوں میں بھی ڈے کیئر بنا دئیے جہاں خواتین بچوں کو چھوڑ کر اپنی دفتری مصروفیات کا آغاز کرتی ہیں اور کام ختم ہونے اپنے بچے کو ساتھ لیکر گھر چلی جاتی ہیں۔

اس صورتحال نے ملازمتوں اور کام کے انداز میں نئے رجحانات کو جنم دیا ہے، بنیادی طور پر ملازم پیشہ افراد تین طریقے سے کام کررہے ہیں۔

1۔ روایتی۔۔ دفتری ویگر کام جس کارکن اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں ہمہ وقت موجود رہے۔ یہ انداز اب بھی بہت سے پیشوں کے لئے لازمی ہے بالخصوص جہاں عوام یا کلائنٹس سے براہ راست سامنا کرنا ہو۔

2۔ ریموٹ۔۔ نام سے ہی ظاہر ہے لوگ ریموٹ طریقے سے گھروں فری لانسنگ کام کرتے ہیں (جس کا آجکل بہت غلغلہ ہے)، اس کے علاوہ کچھ کمپنیاں اپنے ایسے ملازمین جن کے کام کی نوعیت کے لحاظ سے دفتر حاضری لازم نہیں ہو مکمل طور پر دنیا کے کسی بھی حصے میں ریموٹ طریقے سے کام کرنے کے لئے ملازمت دیتے ہیں۔

3۔ ہائی بریڈ۔۔ یہ وہ ملازمتیں ہوتی ہیں جن میں ملازم روزانہ کام تو کرتا ہے لیکن روزانہ دفتر حاضری لازمی نہیں ہوتی۔ ہائی بریڈ نظام کے تحت ملازم روزانہ دفتر آنے کی بجائے حسب ضرورت ہی دفتر حاضری دینے کے پابند ہیں (عموما ہفتے کے پانچ کام کے دنوں کی بجائے دو یا تین دنوں دفتر اور باقی کام گھر سے کرتے ہیں)۔

اس ہائی بریڈ کام کا فائدہ ویسے تو ہر طبقے ہی کو ہوا، لیکن بالخصوص خواتین کے لئے یہ ایک نعمت ہے کہ وہ دفتری کام کے ساتھ گھریلو زمہ داریوں سنبھالنے یا نگرانی کے قابل ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمین کے لئے روزانہ دفتر آمد و رفت کے سفری اخراجات و وقت کے ضیاع کی بچت بھی اضافی فائدہ۔

ویسے تو محدود طور یہ انداز کار محدود کم از کم ایک دہائی سے شروع ہو چُکا تھا لیکن، کورونا کے لاک ڈاؤن کے دوران تقریباً ایک سال تک کاروباری ادارے ریموٹ طریقے سے کام کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کورونا سے متاثر ریموٹ (گھروں سے) کام کرنے کے تجربے کی کامیابی کے بعد بہت سے اداروں نے اپنے انداز کار کو تبدیل کر اپنی افرادی قوت کی بڑی تعداد کو دفاتر میں حاضری پر اصرار کی بجائے گھروں سے ہی اپنے کام کرنے کو قبول کرلیا۔

میرا اس ہائی بریڈ ورکنگ کلچر سے واسطہ اسوقت پڑا جب کئی سالوں قبل ایک عزیزہ بیرون ملک میں ایک بین القوامی امریکی کمپنی (جس کا پاکستان میں بھی دفتر ہے) کی ملازمت چھوڑ کر شادی اور پہلی بچی کی ولادت کے بعد پاکستان منتقل ہوئیں۔ چونکہ وہ پہلے ہی پاکستان سمیت چند ممالک کی نگرانی کرتی رہی تھیں اس لئے کام کی نوعیت سے واقف اور تجربہ کار تھیں۔

پاکستان منتقلی کچھ عرصے کے بعد کمپنی نے پاکستان بھی ملازمت کی پیشکش کی۔ لیکن وہ اپنی بچی اور گھر کی ذمہ داریوں کی بنا پر متذبذب تھیں۔ شدید اصرار کے بعد وہ اس شرط پر کام کرنے پر راضی ہوگئیں کہ وہ اپنا زیادہ تر کام گھر سے کریں گی صرف ہفتے میں ایک آدھ بار حسب ضرورت دفتر جایا کریں گی۔

تقریباً تین سال تک انہوں نے اس طرح کام کیا پھر انہیں بطور ڈائریکٹر ترقی دیکر دوبارہ بیرون ملک بلالیا گیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی ہائی بریڈ ملازمت کا ان کے کیرئیر کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

یہ ہمارا ہائی بریڈ ملازمت کا پہلا مشاہدہ تھا۔ لیکن پھر وہ مقامی کمپنی نہیں بین الاقوامی امریکی کمپنی تھی جہاں اس انداز کام کرنے کا نظام پہلے ہی موجود تھا۔ بیرون ملک مقیم ہماری ایک اور شناسا خاتون بھی اسی طرح ایک ہائی بریڈ ملازمت میں ہیں۔ ان کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہفتے میں دو دن دفتر سے باقی پورا ہفتے گھر سے ہی کام کرتی ہیں۔

بلکہ ان کا سالانہ پاکستان آنے معمول ہے وہ اور ان کے شوہر دونوں ہی عموما دفتر سے چھٹیاں لئے بغیر چند ہفتے اپنے فرائض پاکستان سے آن لائن انجام دیتے۔ صرف اتنا ہے کہ اپنی سماجی و تفریحی مصروفیات کو اپنے دفتری اوقات کے بعد کرتے۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آن لائن یا ہائی بریڈ کام کرنے کا نظام پاکستان کے لیے موزوں ہے؟

یہ نظام بنیادی طور پران معاشروں جو جہاں شرح روزگار تقریبا سو فیصد تک پہنچ چُکی ہو، آبادی کے غیر مستعمل سرمائے (خواتین اور ریٹائیرڈ افراد) کو میدان عمل میں لانے کی ترغیب دینے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ یہ سہولت ترقی یافتہ ممالک کی بڑی اور بین القوامی کمپنیوں میں ہی پائی جاتی ہے۔

اس ماڈل کی کامیابی صرف اُنہی ممالک میں ممکن ہے جہاں گھریلو صارفین کو قابل اعتماد مسلسل بجلی و انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی ہو، جو ہمارے ہاں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ بجلی کی فراہمی میں تعطل عام سی بات ہے اور ہر گھر شخص گھر میں جنریٹر رکھ نہیں سکتا۔ دفتر میں حاضر ہو کر کام کرنا طویل فاصلوں کے سفر کی وجہ سے مشکل و تکلیف دہ ہی سہی لیکن دفتر میں تسلسل سے انٹر نیٹ سے لیکر بجلی کی متبادل فراہمی کی ذمہ داری مالکان کی ہوتی ہے۔

ویسے بھی پاکستان جیسے ممالک میں جہاں مالکان کاروباری فائدے سے زیادہ کمپنی ڈسپلن کارکنان کی بروقت دفتر حاضری پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اس نظام کو ہضم کرنا بھی مشکل ہے۔ کام کے اوقات میں ملازمین کا زیادہ دن گھر سے کام کرنے کا فائدہ ملازمین کے دفتر و گھر آمد و رفت کا وقت و کرائے کی بچت ہی نہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ پر دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی حساسیت دیکھتے ہوئے خواتین کے لئے ہائی بریڈ اور آن لائن ورکنگ یقینا یہ ایک حل ہے، آن لائن اور فری لانسنگ پر ہماری خواتین کسی حدتک پہلے ہی کام کررہی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ہائی بریڈ ورکنگ کلچر تو شروع بھی نہیں ہوا۔

پاکستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے کسی بھی ترقی کی شاہرہ پر گامزن ملک میں یہ آبادی ایک نعمت ہوتی لیکن دہائیوں سے ہمارے برسراقتدار طبقے نے اس ملک کی تعلیم و تربیت کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ایک دردناک داستان ہے۔

جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں کروڑوں کی نیم خواندہ آبادی جن کے پاس ڈگری کے نام پر کاغذ کے ٹکڑے بھی ہوں تب بھی ان کا معیار اتنا گھٹیا ہے کہ کام اور ملازمتیں ملنا آسان نہیں رہا۔ ہمارا تعلیمی انحطاط ہمارے لئے ایک قومی بحران کی حدتک پہنچ گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

الخدمت کا بنو قابل اور اس جیسی دوسری تنظیموں کے نوجوانوں کو ہنر کی تربیت دینے کے لئے پروگرامات درست راہ میں قدم تو ضرور ہیں لیکن بحران کی گہرائی و شدت کو دیکھتے ہوئے، ایک گہرے زخم جس سے خون رس رہا ہے کو پلاسٹر کی چیپی کے ذریعے درست کرنے کے مترادف ہے۔

ہماری اپنی صنعت و تجارت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملازمتوں کی متلاشی بہت ہیں پر بہتر صلاحیت و قابلیت کے حامل افراد کی یہاں بھی قلت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمارے تاجر و صنعتکار بھی اپنی تلاش کا دائرہ وسیع کریں اور قابل خواتین جو گھریلو ضروریات یا روایتی وجوہات پر کام کرنے کے لئے باہر نکلنے سے قاصر ہیں کے لئے فیملی دوست ہائی بریڈ یا آن لائن طریقے سے پیشہ وارانہ زندگی میں آنے کے راستے فراہم کریں۔

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed