Israel Ka Doobta Hua Bera
اسرائیل کا ڈوبتا ہوا بیڑہ
4 مئی 1970 کو امریکی ریاست اوہائیو کی کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی میں نیشنل گارڈ نے ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاجی طلبا پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں جس میں چار طلبہ ہلاک ہوئے اور نو طلبہ زخمی۔ اس تشدد نے طلبہ کی احتجاجی تحریک کو جنگل کہ آگ کی طرح ملک بھر میں پھیلا دیا۔ اس کے چند دنوں بعد یونیورسٹی آف نیو میکسیکو میں نیشنل گارڈز نے گیارہ طلبا کو سنگینوں کے زریعے زخمی کردیا۔ طلبا کے پرامن احتجاج پر کئے جانے والے سرکاری تشدد نے ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی بجائے مہمیز کیا اور پورے میں امریکہ میں طلباء کے جذبات کا اظہار نیویارک یونیورسٹی کے طلبا کے ایک بینر میں ہوا جس پر لکھا گیا تھا، "They Can't Kill Us All۔ "(وہ ہم سب کو قتل نہیں کرسکتے)۔
امریکی اسرائیل کے حامی سیاستدان ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے امریکی صدر نیشنل گارڈ بُلانے کی اپیل کررہے ہیں۔ جب صدر بائیڈن نے نیشنل گارڈ بُلانے سے انکار کردیا تو محدود پولیس ایکشن کے ذریعے کولمبیا یونیورسٹی کو "صاف" کو کردیا جس میں سیکڑوں طلباء کی گرفتاریاں تو ہوئیں لیکن بہت زیادہ تشدد سے احتراز کیا گیا جس کی وجہ طلبا کی سے ہلاکتیں و زخمی نہ ہوئے۔ دوسری طرف پرو اسرایئل غنڈوں نے UCLA کیلیفورنیا میں فلسطینوں کے حمایتی طلباء کے کیمپوں پر نقاب پوش حملہ کیا اور پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ لیکن اسے جواز بنا کر پولیس کو فلسطینیوں کے احتجاج کو ختم کرنے کا بہانہ بن گیا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی حرکات جارہی رہیں گی، انتظامیہ کی سرپرستی میں صیہونیوں غنڈوں کا طلباء پر حملہ ان کی جھنجھلاہٹ کا اظہار تو کرتا ہے، دوسری طرف اس کے نتیجے میں احتجاجی تحریک کو بھی ہوا مل سکتی ہے۔
مئی 1970 میں کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی میں نیشنل گارڈز کی کاروائی کے نتیجے میں چار طلبا کی ہلاکت نے ویت نام جنگ کے احتجاجی تحریک کو پورے امریکہ میں بھڑکانے میں اہم کردار انجام دیا تھا۔ اس مرتبہ جانی نقصان کے بغیر محدود کاروائی کے نتائج آئندہ چند دنوں میں سامنے آجائیں گے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اسرائیلی حرکتوں کے خلاف عوامی بیزاری کی نے اب بڑھنا ہی ہے۔
ساری خدائی ایک طرف، اسرائیل بھی امریکہ و یورپی اسٹیبلشمنٹ کے لئے وہ جورو کا بھائی ہے جس کے لئے وہ دنیا سے لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ جورو کا یہ بھائی اب اپنے امریکی و یورپی بہنوئیوں کے لئے ایک بوجھ بنتا جارہا ہے۔ موجودہ امریکہ حکومت نے اسرائیل کی حمایت جارہی رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی حدتک ہچکچاہٹ و مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر امریکی و یورپی رائے عامہ بھی ایک حدتک اسرائیل کے خلاف ہوتی جارہی ہے، یہ امریکی کیمپس کے مظاہرے جو بڑی حدتک قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔
اسرائیل و یہودیوں نے ہولوکاسٹ کی مظلومیت کو فروخت کرکے جو carte blanche حاصل کیا تھا اس کی Use by date کم ہوتی جارہی ہے۔ ہولو کاسٹ تین نسلوں قبل کی بات ہے اور اب پرانی فلموں کی حدتک رہی گئی ہے۔ اگلی نسل اس کہانی کی یرغمال نہیں رہ سکتی۔
اب شوشل میڈیا اسپتالوں پر گرتے ہوئے بم، عورتوں بچوں کی لاشیں، یہ وہ ہولوکاست ہے جو دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ یہی بات ٹرمپ نے بھی کہی تھی کہ روزانہ رات کو ٹی وی پر بلڈنگوں پر گرتے بم اور عورتوں بچوں کی لاشیں دیکھنے کے بعد اسرائیلی حمایت تو کم ہونی ہی ہے۔
نہ جانے کیوں اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی اور گوگل سے لیکر فیس بُک تک سوشل میڈیا کی کمپنیوں کی یہودی ملکیت کے باوجود اس اسٹریمنگ کو روکنے میں ناکام رہا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہودی دنیا بھی اسرائیل کے ساتھ مکمل طور پر نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال میں اسرائیل کو صورتحال کا احساس کرنا چاہیے۔ ان کی بقا کی سب سے بڑی ضمانت ہی امریکی و یورپی اسٹیبلشمنٹ ہے اور اس قسم کا بدمعاشانہ رویہ اس کی طویل المدّت مفاد میں نہیں ہے۔ جس طرح امریکہ اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنا بھرپور دباؤ استعمال کررہا ہے وہ بھی اس بات کی علامت ہے کہ وہ پڑوسی ریاستوں میں اسرائیل کی قبولیت پیدا کرکے مناسب حالات پیدا کرنے کے کوشش کررہا ہے تاکہ مستقبل میں اس کا امریکی دفاعی چھتری پر انحصار کم کیا جاسکے۔
بڑے جہاز مُڑنے میں بہت وقت لیتے ہیں، یقیناََ آج کی تاریخ میں یہ اسٹیبلشمنٹس اپنی پرانی پالیسیوں پر کاربند ہیں۔۔ لیکن اسرائیل کی زمینی حمایت میں کمی کا جلد یا بدیر (کم از کم ایک دہائی بظاہر طویل عرصہ لگتا ہے لیکن اقوام کے لیے مختصر وقت ہے) اثر یہاں بھی ہونا ہے۔
اس وقت اسرائیل اپنے سرپرستوں کے ہاں بھی سفارتی تنہائی کا شکار نظر آرہا ہے۔ بائیڈن ابھی تک اسرائیلی حمایت کی رسّی سے بندھا ہوا ضرور ہے لیکن اس کا معاملہ ایک بھڑکے ہوئے بیل کا ساہے۔ جو رسّی تُڑانے کی کوشش کررہا ہو۔ کیا اس سے قبل یہ تصور کیا جاسکتا تھا کہ صدارتی انتخابات سے قبل کوئی امریکی صدارتی اُمید وار اسرائیل سے فاصلہ رکھ رہا ہو۔
تبدیلی کا عمل شروع ہو چُکا ہے، لیکن اس کی حقیقی اثرات دیکھنے کے لئے کم از کم ایک دہائی کا سفر باقی ہے۔ اگر آئندہ انتخابات میں ٹرمپ منتخب ہو جاتا ہے تو سفر کی رفتار کم ہو سکتی ہے لیکن سفر جاری رہے گا۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ:
بیشک اس میں عقل مندوں کیلئے نشانیاں ہیں۔