Bani Israel Ka Mazloomiat Card
بنی اسرائیل کا مظلومیت کارڈ
دلچسپ بات یہ کہ تاریخی طور پر "اسرائیلی مذہب" کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے درمیان جنگیں صرف دور نبوی ﷺ کے دور میں ہوئی تھیں، اس کے بعد ایک ہزار سال سے زائد کی تاریخ میں انہیں یورپ کے عیسائیوں کے شدید ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔
بلکہ اٹھارویں صدی تک انہیں یورپ میں دوسرے نہیں تیسرے درجے کے شھری کی حیثیت سے رکھا جاتا تھا۔ جب انہیں یورپ میں مستقل دربدری اور ہجرت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ انہیں عیسائی مذہب اختیار کیے بغیر فوج و سرکار کے اعلیٰ عہدے، کاروبار و زمین کی ملکیت کی اجازت نہیں تھی۔
عیسائیت میں سود کی حرمت کی وجہ سے اس زمانے میں یہودیوں کو سودی کاروبار و حساب کتاب کے لئے ملازمتوں کی اجازت تھی بلکہ بادشاہوں کے دربار میں ان فرائض کی ادائیگی کے لئے کسی یہودی کو متعین کیا جاتا تھا جسے درباری یہودی یعنی court jew کہا جاتا تھا۔
اسی طرح جائیداد خریدنے اور کاروبار پر پابندی کے نتیجے میں انہیں صرف انفرادی فنون حاصل کرنے والے پیشوں کی اجازت تھی۔ یہی وجہ کہ ان کی نسلیں سے بینکاری صنعت وحرفت و دیگر انفرادی مہارت والے پیشوں (بشمول طب و قانون) سے وابستگی کی وجہ سے اب دنیا بھر میں ممتاز ہیں۔
اس پورے دور میں مسلمانوں کا ان کے ساتھ اچھا سلوک رہا بلکہ مسلمانوں کا اندلس پر حملہ بھی وہاں کے ایک یہودی سردار کی دعوت پر انہیں اس وقت کے بادشاہ کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہوا تھا۔
ہولوکاسٹ بھی یورپ میں پیش آیا کہا جاتا ہے کہ اس میں ساٹھ لاکھ یہودی مارے بھی گئے اگر یہ تعداد درست بھی ہے تب بھی یورپ میں ہونے والے ظلم و ستم کی ذمہ داری یورپ کے عیسائیوں پر تھی اس میں مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔
لیکن بنی اسرائیل نے دنیا بھر میں ہولوکوسٹ کی مظلومیت کو کامیابی سے فروخت کرکے، اس کے نتیجے میں احساس ندامت کی شکار برطانیہ و دیگر یورپی اقوام نے انہیں لیکن اس کے تاوان کے طور پر "نزلہ برعضو ضعیف" کے مصداق فلسطین ان کے حوالے کرکے وہاں کے "ریڈ انڈین" یعنی فلسطینوں پر ظلم وستم کی نہ صرف کھُلی چھٹی دی بلکہ اپنی فوجی و تکینکی مہارت کے بل پر ان کے تحفظ کی بھی مکمل ذمہ داری قبول کی اور اسرائیل مسلمانوں کے لئے ناسور بن گیا۔
ہولوکاسٹ جو بھی تھا کہ 1933 سے 1945 کے دوران کی کہانی ہے۔ اس دوران یورپ کی بھی دو نسلیں گذر چُکی ہیں اور مغرب نئی نسل اپنے دادا پر داد کی نسل کے احساس جُرم کی یرغمال نہیں رہ سکتی۔ یہی کچھ اب ہوتا نظر آرہا ہے۔
پروپیگنڈہ و مارکیٹنگ مہمات کی بھی شیلف لائف ہوتی سے اس کے بعد اگر اسے نئی کہانی نئے اشتہار کے ذریعے تازہ نہ کیا جائے تو اس کئی افادیت کمزور ہو جاتی ہے۔ اسی لئے اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملے کو ہولوکوسٹ کے بعد ان کی قوم و نسل پر دوسرا شدید ترین حملے کے نام پر نئی پروڈکٹ لانچ کی۔
لیکن بارہ سو مبینہ اموات کے نام پر سولہ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شھادت جن میں پانچ ہزار سے زائد بچے شامل ہیں کہ اموات، فلسطینیوں کی پوری پوری آبادی کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے نتیجے میں اسرائیلی فوجی برتری تو اپنی جگہ فلسطینیوں کی دلیرانہ قابل ذکر مزاحمت نے بین القوامئی رائے عامہ میں فلسطینیوں کے لئے ہمدردی کی لہر پیدا ہورہی ہے۔
موجودہ صورتحال میں یورپ و امریکہ کے یہودی اپنی تاریخ کے پہلو سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں عیسائی دنیا ان کے معاملے میں اپنی پرانی روایات کی طرف نہ پلٹ جائیں، آج کل یہود دشمنی یعنی antisemitism نام کو گالی بنا کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ درحقیقت اس کی ابتدا اور انتہا (holocaust کی صورت میں) یورپ میں ہوئی ہے اور مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آخر میں ایک سوال چھوڑے جارہا ہوں کہ دنیا بھر میں لبرل ازم کی تحاریک وفروغ کا اصل فائدہ کس کو ہوا؟
واضح رہے کہ میں مذہبی آزادی کسی کے خلاف بھی نسلی و مذہبی بنیاد پر متعصبانہ رویہ رکھنے کے خلاف بھی ہوں اور ہولوکوسٹ کے نام پر یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و نسل کُشی کو شدید غلط سمجھتا ہوں اور اس کی شدت سے مذمت کرتا ہوں اس لحاظ سے کچھ لبرلیت کے جراثیم مجھ میں بھی ہیں یا ایک حدتک سینٹر رائٹ کہہ سکتے ہیں۔
لیکن اگر عیسائی یورپ لبرل نہیں ہوجاتا۔۔ نہ تو یہودی اسرائیل بنا پاتے اور نہ ہی یورپی و امریکی اس طرح اس کی پاسبانی کرتے۔ بلکہ یورپ و امریکہ میں بھی آٹھ دس ملین یہودی آج بھی دوسرے تیسرے درجے کے شھری بھی ہوتے یا کم از کم آج کے سیاسی غلبے سے محروم ہوتے۔ یا یورپی اقوام کی مکمل فوجی و اخلاقی حمایت نہ ملتی۔
کم از کم مسلمان دنیاو ارض فلسطین میں اس ناسور سے محفوظ ہوتی۔