Aisa Kyun Hai?
ایسا کیوں ہے؟
حالیہ ایران واسرائیل تناؤ میں اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی فلسطینیوں پر ہونے و زیادتی کی جانب سے دنیا کی توجہ کسی اور سمت مبذول کرنے کے لئے اسرائیل نے ایران سے غیر ضروری طور پر جھگڑا مول لیا۔ دوسری طرف ایران بھی اسرائیل سے کسی بڑی تصادم کے لیے تیار نئیں تھا کہ ایران کی صلاحیت و اس معاملے میں ارادے دونوں کا مسئلہ ہے۔
فضائی جنگ جہاز، میزائل و ڈرون آجکل کے دور میں ویڈیو گیم بن گئے ہیں۔ ایرانی فضائیہ ابھی تک 1979 سے قبل کے شاہ ایران کے دور کے جہازوں پر چل رہی ہے۔ کچھ نسبتا نئے جہاز اسوقت ملے جب خلیج کی جنگ میں صدام حسین نے اپنے جہاز حفاظت کے لئے ایران میں پارک کردیے تھے جنہیں ایران نے مال غنیمت کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی میزائل نہ صرف اسرائیل کی حدود میں داخل ہو کر اس خطّے میں بڑی تعداد میں امریکی، برطانوی و اسرائیلی اینٹی میزائل شیلڈ کی موجودگی کے باوجود اسرائیلی فضائیہ کے اڈّے کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گئے جوکہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
اس وقت ریڈار کے ذریعے سو دوسو کلومیٹر سے نشانہ لگانے والی بی وی آر ٹیکنالوجی کی موجود گی میں ایرانی طیارے اسرائیل سے سو کلومیٹر کے فاصلے میں بھی نہیں جا سکتے۔ زمینی طور پر ان کے پاس حزب اللہ بھی ہے اور شام میں بھی assets ہیں جنہیں نامعلوم وجوہات پر بھرپور طریقے استعمال کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔
بس ایسا سمجھ لیں کہ ایران اور اسرائیل رشتہ دوستی و دشمنی کے درمیان کا ہے دونوں ایک دوسرے کو استعمال کرکے اپنی حامیوں کے درمیان اہمیت برقرار رکھنے کے لیے اپنی وقتا فوقتا ریسلنگ کے میچ کھیلتے رہتے ہیں۔ اس قسم کے مقابلوں میں تھوڑی بہت مار تو دونوں کو کھانی پڑتی ہے۔ تاکہ مقابلے میں تھوڑا حقیقی رنگ آجائے۔
لیکن اب تک مار کھانے کا تناسب بھی دیکھا جائے تو اب تک مار ایران ہی زیادہ کھاتا ہے۔ اسرایئل کا کچھ نہ بگاڑنے کے باوجود اسرائیل کے مقابلے میں بڑک بازی میں مسلمان دنیا کا سلطان راہی تو بن ہی گیا۔
جہاں تک اسرائیل پر امریکی لابی کے اثر کی بات ہے اس معاملے میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ صورتحال میں امریکی معیشت میں یہودیوں کے حصے کا تناسب کتنا ہے؟
زیادہ امکان ہے کہ معاملہ ساڑھے چھ ملین یہودیوں کے امریکہ پر معاشی کنٹرول سے زیادہ سیاسی جماعتوں اور امریکی صدور کے انتخاب میں بڑئی رقوم کے ڈونیشن کی وجہ سے بااثر ہیں۔ ہر صدر، سینیٹر و کانگریس مین کو انتخابی مہم کے لئے بڑے عطیہ دہندگان کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ رقوم ان کی انتخابی مہم کی لائف لائن ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان بھی کم ہوگا۔ یہودی یا کسی اور کا پیسہ انتخابی مہم میں تو کام آئے گا لیکن رائے عامہ کے خلاف جانے والا شاید بہتر دیر تک نہ جا سکے۔
موجودہ حالات میں امریکی معیشت پر بنی اسرائیلی کنٹرول پر کوئی ریسرچ و رپورٹ دیکھے کی ضرورت ہے تاکہ اس تاثر کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ کر اسے تسلیم یا مسترد کیا جاسکے۔
ضروری نہیں کہ جو چیز پچاس سال قبل درست ہو آج بھی اتنی ہی درست ہو۔ ہر قسم کے ڈیٹا و تصورات کی validity کو وقت کی کسوٹی پر پرکھنے رہنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ پیدا ہونے والی نئی دولت نے نئے ارب پتی پیدا کئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے ارب پتیوں میں بنی اسرائیلی کا تناسب تقریبا پچاس فیصد ہے۔ 2023 کی فوربس اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 264 بنی اسرائیلی بلیینزرز کی مجموعی دولت کا تخمینہ 1800 بلین ڈالر ہے جبکہ اس قوم کے 135 بلینئرز کی ٹوٹل ڈولت 1245 بلین ڈالر ہے۔
جبکہ ٹوٹل امریکی بلیینئرز کا تخمینہ 5529 بلین ڈالر ہے اس کا مطلب یہ ہے بلینئیرز کے لحاظ سے تقریباً 25 فیصد دولت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن یہ مت بھولیں کہ 75 فیصد دولت کے مالک دیگر مذاہب کے پیروکار بھی ہیں۔ اس لحاظ یہ با آسانی کہا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل اسوقت امریکہ معیشت کی بالادست گروہ نہیں رہے۔
دوسری طرف وہ 20/25 فیصد ہی سہی لیکن امریکی سیاست میں اپنی دولت کے استعمال بلخصوص سیاسی عطیات کے معاملے میں اجتماعی طور پر عمل کرکے اپنے سائز سے زیادہ طاقت کااظہار کرتے ہیں۔
اس وقت امریکی یونیورسٹیوں ہی نہیں بلکہ امریکہ کے سیاسی نظام میں بھی اسرائیل کے اپنی روایتی ہمدردی کھونے کا عمل شروع ہوگیا۔ ابھی تو ایک ابتدا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طویل عرصے تک sustain ہو سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بظاہر امریکی ڈیموکریٹ پارٹی میں اسرایئل کے خلاف لاوا 2022 کے کانگریس کے انتخابات کے زمانے میں ہی پکنے لگا تھا (مجھے نہیں پتہ اس کی وجہ کیا ہے)۔
یہی وجہ ہے کہ اہم ترین پرو اسرائیلی لابی گروپ AIPAC جو اس سے قبل بنی اسرائیلی انتخابی عطیات کی رقوم براہ راست نہیں بلکہ اپنے لوگوں کے ذریعے انفرادی طور پر دلواتی تھی لیکن 2022 میں یہ کام خود اپنے ہاتھ میں لے کر کیا گیا تاکہ صرف وہی کانگریس کے امید وار بنی اسرائیلی فنڈ وصول کرسکیں۔
سال رواں میں بھی انتخاب کا سال ہے صدارتی بھی اور کانگریس کا بھی۔ اسوقت AIPAC کانگریس کے انتخابات کو متاثر کرنے کے لئے 100ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا بجٹ بنا کر بیٹھی ہے۔
سب سے پہلا مرحلہ یہ ڈیمو کریٹ پرائمری کے مرحلے پر ہی ناقابل قبول امیدواروں کے مخالف کی حمایت کرکے انہیں پارٹی کے ٹکٹ سے ہی محروم کردیا۔ جبکہ ڈیمو کریٹ امیدواران بھی اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ چاہے کوئی بھی نتیجہ نکلے اس وقت امریکہ میں اسرائیل و یہودی لابی مشکل میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس "بغاوت" کو فرو کرنے کے لئے بین الاقوامی طور ہے کوئی دہماکہ خیز ڈرامہ اسٹیج ہوگا؟
ایران پر حملے والا ڈرامہ تو ناکام ہوگیا ہے۔ اب اگلا ڈرامہ بنی اسرائیلی ٹارگیٹس پر کوئی بڑا واقعہ جس کی بنیاد پر دوبارہ "مظلوم بنی اسرائیلی" ہزار خون کا لائسنس حاصل کرلیں۔
اسرائیل کو امریکی عوام و سیاستدانوں میں اپنی حیثیت و وقعت بحال کرنے کے لالے پڑ رھے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل فوجی و دیگر ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایک ایڈوانس ملک ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ عربوں سے اپنے ذاتی قوت سے مقابلہ کرتے ہوئے کیوں خوفزدہ ہے؟
بظاہر اسرائیل اپنی تمام سائنسی ترقی کے باوجود۔۔ اپنے دفاع کے لیے اعتماد سے محروم قوم ہے۔
ایسا کیوں ہے؟