Aaj Muztar Hai Meri Jan Khuda Khair Kare
آج مضطر ہے مری جان خدا خیر کرے
پہلی بات یہ ہے کہ میں عمران کا شدید ناقد ہونے کے باوجود جس طرح فارم 47 اور من پسند الیکشن کمیشن و عدالتی فیصلوں کے ڈنڈے کے زور پر یہ حکومت مسلط کی گئی ہے اس کا شدید مخالف ہوں۔
ایسا ہے تو نہیں پھر بھی مان لیتے ہیں کہ یہ حکومت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور ملک میں ہر طرف دودھ وشھد کی نہریں رواں دواں ہیں اور انصاف کا یہ عالم ہے کہ شیر و بکری ایک ساتھ پانی پیتے ہیں۔
پھر بھی اگر کوئی شخص کسی بچے کو اغوا کرکے پالنا شروع کردے چاہیے اسے کتنا ہی پیار و اعلیٰ تعلیم دے دے لیکن اس قسم کا زبردستی کا رشتہ اسے حقیقی باپ نہیں بنا دے گا۔
اصولی طور پر ملک چلانے کا حق اسی کا ہے جسے عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے آزادنہ کے ساتھ منتخب کیا ہوگا۔ اغواکرکے بنایا ہوا رشتہ کبھی بھی جائز نہیں ہوگا۔
اب آجائیں ہمارے انصافی بھائیوں وتحریک انصاف پر اس ملک کا سب سے بڑے مسائل کا تعلق گورنینس اور معیشت کے ساتھ ہے، گورنینس نہ تو حکومت عمرانیہ کی ترجیح تھی اور نہ موجودہ حکمرانوں کی۔
جہاں تک معیشت کا تعلق ہے۔ معذرت کے ساتھ ہمارے انصافی دوست مذہبی نہ بھی تو سیاسی کلٹ کے طور پر ردعمل دیتے ہیں۔ یہ ملک اپنے دولت پیدا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں، مکمل طور پر بیرونی ممالک یا اداروں سے مالی یا ٹریڈ سہولتوں پر انحصار کرتا ہے۔
یہ آج کی صورتحال نہیں ہے پہلے بھی یہی حال تھا۔ عمران خان کی حکومت بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے آئی ایم ایف سے رقم ملنے سے قبل ہی جب تختہ الٹنے کے آثار نظر آنے لگے تو انہوں نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ جس کا نتیجہ بعد میں آنے والی حکومت نے بھگتا۔
بظاہر عمران خان اور ہمارے انصافی بھائیوں کا مستقل خوف ہے کہ اگر آنے والی حکومت کسی طرح معیشت کو سنبھالنے کے قابل ہوگئی تو ان کے قدم جم سکتے ہیں اور شائد اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو کسی حدتک واپسی کی سبیل پیدا ہو سکے۔
اس لئے وہ ملک میں ہونے والی کسی قسم کی بین الاقوامی معاشی و سفارتی سرگرمی کو براہ راست نشانہ بنانے کےلئے اپنی احتجاجی تحاریک کا پروگرام اسی وقت طے کرتے ہیں۔ بلکہ چند سالوں قبل اسی جماعت کے معیشت کے ماہر کی فون کی گفتگو جاری ہوئی تھی جس میں وہ آئی ایم ایف سے پاکستان کے قرضے کو سبوتاژ کرنے کی بات کررہے تھے۔
یہ ایک مرتبہ کی بات نہیں ہے بلکہ تسلسل کے ساتھ سامنے آنے والا پیٹرن ہے۔
میری درخواست ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اس معاملے میں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرکے ذَمہ دار حزب اختلاف کا کردار ادا کرے، کہ چاہے اس حکومت سے کتنا بھی شدید اختلاف ہو۔ لیکن اسے گرانے کے لیے ملک کو تباہ کرنے کی حدتک کسی اور دیش کا شھری تو ہو سکتا ہے۔ پر پاکستانی نہیں۔
میں اس رجیم سے نفرت کے باوجود یہ ملک میرے لئے کسی نواز شریف، زرداری، عمران خان سمیت کسی سے زیادہ قیمتی ہے۔
جس طرح موجودہ رجیم اپنے اقتدار کی بقا کے لئے ظلم کررہی ہے وہ کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کے لئے ناممکن ہے۔ پر کہتے ہیں کہ اب سیاسی لوگ سیاسی نہیں رہے۔ اسی لئے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ویسے پہلے بھی کونسے سیاسی تھے۔ اس ملک میں گراس روٹ کا کارکن شاز ہی قومی سیاست میں صف اوّل تک پہنچتا ہے۔
سیاست وہ کرے جسے عوام سے ووٹ لینا ہوں۔ طاقتوروں کی تابعداری کے ذریعے عروج و اقتدار حاصل کرنے والے عوامی سیاست نہیں ڈرائنگ روم سے نکلتے ہیں۔
یہاں صف اوّل کے سیاسی لوگ تو عموماََ پیراشوٹر ہیں جو کسی پروسیس کے بغیر کسی کی نگاہ ناز یا پیدائش کے سرٹیفیکیٹ کے زور پر ملکی و قومی قیادت کے حقدار بن گئے۔ نوازشریف کو جنرل جیلانی و ضیا کا پیراشوٹ ملا (یہ الگ بات ہے کہ بعد میں نشیب فراز دیکھے پھر بھی وہ نشیب بھی بہتوں کے اونچائی تھی)۔ عمران کو تو اتنے پیراشوٹ ملے کہ گنتی کرنا مشکل ہے۔ اس لئے لیڈران سے اس قسم کی حرکتیں قابل فہم ہیں۔
ایک سیاسی ورکر کا تجربہ زمین سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن پیرشواٹر کا نشیب اسے زمین پر نہیں لے جاتا۔ صرف اتنا ہوتا ہے ہمالیہ کی اونچی چوٹی سے تھوڑے نیچے والے بیس کیمپ پر پہنچ کردوبارہ پہنچنے کی کوشش۔
اقتدار سے باہر بھی ان کی حیثیت آنے والے حکمران کی ہی ہوتی ہے اس لئے ان کے گرد وہی مصاحبین کا جھُمگھٹا زیادہ سے زیادہ ڈرائنگ روم کی سیاسی شطرنج، وہ زمین پر کبھی پہنچتے ہی نہیں۔ نواز شریف بھی ڈرائنگ روم کے شاطر بن گئے، زرداری تو اس شطرنج کے عالمی چیمپین بن سکتے ہیں۔ عمران بھی اپنے تئیں شطرنج ہی کھیل رہا ہے۔
انہیں زمین اس کے اصول بنیادی باتوں کا کیا پتہ۔۔
لیکن صحافی طبقہ بالخصوص پرنٹ میڈیا کے جو با شعور تعلیم یافتہ، ملک و قوم کے سیاسی نشیب و فراز شاہد ہے۔ ان کا سیاسی شعور اور زمینی حالات کا فہم نام نہاد پیراشوٹر قائدین ہی نہیں بلکہ زمین پر کام کرنے مختلف گروہوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کسی بھی جماعت کے زندگی بھر کے کارڈ ہولڈر کارکن و لیڈر سے زیادہ ہوتا ہے۔
یہ مانا کہ الیکٹرونک میڈیا میں صحافت میں بھی پیراشوٹر آگئے لیکن پرنٹ میڈیا میں اب بھی اگلے وقتوں کے صحافی کم نہیں ہیں۔ جنہیں عقل، شعور و تجربہ کسی بڑے سے بڑی سیاستدان سے کم نہیں ہے۔ وہ کیسے اس مرحلے پر ملک کے ساتھ ہونے والی مصیبت کو نظر انداز کرکے مختلف جماعتوں کا بھونپو بن گئے؟
آج اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کو بھونڈے طریقے سے نمٹنے میں ناکامی کے اعتراف کے طور پر ان حکمرانوں نے فوج بلاہی لی ہے، خندقیں وہ بھی موٹر وے پر پہلے ہی کھود لی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ بادی النظر ہاتھ تو اٹھا ہی لئے۔
ویسے ان حالات میں شاید فوج کے لئے مارشل لا لگانا ممکن نہیں ہوگا۔ پر یاد ہے ایران میں شاہ ایران کے آخری چند ماہ۔۔ ایک جوکر کی ناکامی دوسرے جوکر کی آمد کا نقارہ۔۔ اگست 1977 سے فروری 1979 تک ایران میں پانچ وزرائے اعظم آئے تھے۔۔ پھر خمینی آگیا۔
زیادہ سے زیادہ شھباز کی چھُٹی ہو جائے گی، کوئی اور جوکر لایا جائے گا۔ وہی ایران جیسا میوزیکل چیئر اور انجام۔۔
وہاں پر فرانس والا خمینی آیا تھا۔ یہاں پر مرتبہ اڈیالہ والا۔۔ پر آنے کے بعد کرےگا وہی کچھ جو فرانس والے نے کیا تھا۔
رات کو نیند نہیں صبح کو آرام نہیں
ان کے آنے کا ہے امکان خدا خیر کرے