Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Atif Aziz
  4. Haye Haye Ali Akbar

Haye Haye Ali Akbar

ہائے ہائے علی اکبرؑ

علی اکبر ابن حسینؑ 11 شعبان 44 ہجری کو پیدا ہوئے آپ امام حسینؑ فرذند تھے آپؑ کی والدہ ام لیلیٰ تھیں۔ وہ اٹھارہ سال کا خوبصورت نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ اک بہترین بہادر سپاہی تھے اور بہادر کیوں کر نہ ہوں؟ جس کا داداؑ فاتحِ خیبر اور چچا عباسِؑ علمدار جیسا ہو۔ علی اکبرؑ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے اس قدر مشابہت رکھتے تھے کہ امام حُسینؑ کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا جاتا تھا کہ جب بھی میں حضرت محمد ﷺ کو یاد کرتا ہوں تو میں ہمیشہ اکبر کی طرف دیکھتا ہوں۔

اکبرؑ کے بارے میں کافی روایات یہی ملتیں ہے کہ آپ کی آواز بلند ہونے کے ساتھ ایسی سماعت رکھنے والی تھی کہ ہر کوئی اکبرؑ کی آذان لفظ آخر تک سنتا پھر چاہے وہ غیر مذھب ئی کیوں نہ ہو یہ بات ہرگز غلط نہیں ہوگی کہ اگر ماں کے بعد دوسرا خلوص سے محبت، خیال اور دھیان رکھنے والی کوئی ہستی ہے تو اُسے بہن کہتے ہیں۔

علی اکبرؑ کی بہنوں میں سے اک بہن فاطمہ صغراؑ تھیں جس کو اکبرؑ ماں جیسا پیار و رشک تھا اپنے بھائی پر جو کہ اپنے والد حُسینؑ کی طرح اکبرؑ کو دیکھ کر رسول اکرم ﷺ کی چاہ پوری کرتیں تھیں، سیدہ صغراؑ کربلا میں موجود نہیں تھیں جس کی وجہ اُنکی علالت بیان کی جاتے ہے، مورخیں تو اپنی جگہ لیکن کربلا و مدینے میں موجود آلِ رسول ﷺ یہ سوچ کر پریشان ہو جاتے تھے کہ اکبرؑ کے بغیر صغراؑ کس قدر مشکل سے جیتی ہوگی، اب صغراؑ نے یقین کے ساتھ ہر دن اک نئی اُمید سے گُزارا ہوگا کہ اکبرؑ لوٹ آئے گا۔

اکبرؑ عاشورہ کی صبح اذان دے رہا ہے اور کربلا میں موجود لشکرِ حُسینؑ یہ جانتا ہے کہ یہ آخری بار اکبرؑ کی اذان سن رہے ہیں۔ جب علی اکبر نے اذان شروع کی تو غریبِ کربلاؑ رونے لگے اب مجھے جہاں تک لگتا ہے کہ کیوں روئے حُسینؑ میرا کیا ہر جوان بیٹے کے باپ، بھائی، بہن اور ماں کیا یہی ماننا ہوگا کہ حُسینؑ جوان بیٹے کی لاش کو تصور کرکے اُسے لاش کو اُٹھا رہے ہونگے اس لیے روئے ہیں حُسینؑ۔

صبح کی نماز کے بعد اکبرؑ باپؑ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ ابا جان میں اجازت مانگتا ہوں کہ جا کر اسلام کے دشمنوں سے لڑوں۔ حسینؑ نے اپنے بیٹے کی طرف پیار سے دیکھا اور کہا اکبر تمہیں میری اجازت ہے، اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو لیکن اکبر تم جانتے ہو کہ تمہاری ماں، بہنیں اور خالہ تم سے کتنی محبت کرتی ہیں، جاؤ اور ان کو الوداع کرو۔ علی اکبر اپنی ماں کے خیمے میں چلا گیا۔ جب بھی وہ خیمے سے باہر نکلنا چاہتا تو ماں، خالہ اور بہنیں اس کے عباھ کے چادر کھینچ کر کہتیں اے اکبر ہم تیرے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں؟ بلخیر باپ نے اپنے جوان بیٹے کو گھوڑے پر سوار کیا علی اکبر جب میدان جنگ کی طرف سوار ہونے لگے تو پیچھے قدموں کی آواز سنائی دی، پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو باپ ضعیف قدموں سے پیچھے آ رہا ہے۔

اکبرؑ: ابا جی ہم نے الوداع کہا ہے آپ میرے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟

حسینؑ: بیٹا اگر تم مجھ جیسے بیٹے کے باپ ہوتے تو یقیناً سمجھ جاتے!

علی اکبرؑ نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔ بہت سے مشہور جنگجوؤں کو مارنے کے بعد کسی نے ایک لڑائی میں اس کے قریب آنے کی ہمت نہیں کی۔ مخالف سپاہ سلار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ اس نوجوان کو ختم کر دیں علی اکبرؑ پر چند سپاہیوں نے حملہ کیا تو ایک اور مخالف سپاہی آہستہ آہستہ اس کے پاس آیا اور اس کے سینے پر اس وحشیانہ انداز میں نیزہ مارا کہ وہ اس کے سینے میں گھس گیا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔

گھوڑے سے گرتے ہی اس نے پکارا۔ "ابا، میرا آپ کو آخری سلام! " زمین پر گھرنے سے نیزہ لکڑی سے ٹوٹ کر اک بھرچی کی شکل لے گیا جو سینہِ اکبرؑ میں ڈھنس گئی، حسینؑ نے اکبر کا سلام سن کر فرات کی طرف دیکھا جہاں غازی عباسؑ کی لاش پڑی تھی اور کہا: عباس! اب جب کہ تمہارے اس بھائی کو تمہاری سب سے زیادہ ضرورت ہے، "تم کہاں چلے گئے؟"۔

جب حسینؑ اکبرؑ کے پاس پہنچے تو اس نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اکبر کا دایاں ہاتھ سینے پر تھا۔ اس نے اپنا بایاں بازو اپنے باپ کے کندھے پر رکھا۔ حسین نے کہا اکبر تم مجھے صرف ایک بازو سے کیوں گلے لگا رہے ہو؟

اکبر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حسینؑ نے اکبرؑ کا ہاتھ ہٹا کر جانچ کرنے کی کوشش کی پر اکبرؑ نے مزاحمت کی، حسینؑ نے آہستہ سے ہاتھ ہٹایا کہ دیکھا ہے کہ نیزے کا لوہا (برچھی) اکبرؑ کے سینے کو کھا رہی ہے امام حُسینؑ نے اکبرؑ کے سینے میں دھنسی برچھی پر ہاتھ رکھے اور گھٹنوں کے بل زمیں پر بیٹھ کر جوان بیٹے کے سینے سے برچھی نکال رہے ہیں کہ اس سے پہلے کہ برچھی نکلے اکبرؑ نے باپ کو الواع کہا۔ حُسینؑ تو تب ہی ضعیف ہوگئے تھے جب جوان کو روانہ کیا، اب لاش جو خیمے آئی ہر کسی کا اپنا گریہ تھا لیکن لیکن اک جملا سب کی گریہ میں شامل ہوتا کہ کوئی صغراؑ نے پوچھا تو کیا کہیں گے؟ جس کو معروف شاعر محشر لکھنوی صاحب یوں کہتے ہیں۔

مان تیری جدائی میں بھلا کیسے جئے گی؟
مر جائے گی ضغراؑ جو خبر تیری سنے گی

اب کیا کروں جی کر ہائے ہائے علی اکبر۔

Check Also

Mujawza Aaeeni Tareem Par Hukoomat Aur Opposition Ka Muaqif

By Asif Ali Yaqubi