Badlao Ki Chirya
بدلاو کی چڑیا
کہتے ہیں کسی شہر میں ایک پاگل رہتا تھا جو روزانہ شہر کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا اور سارا دن چلاتا رہتا، لوگو اٹھ جاو اب۔۔۔ اپنے حق کےلیے لڑو۔۔۔۔ کب تک یونہی غلامی کرتے رہو گے۔۔۔ لوگ اس کی باتوں پر ہنستے اسکا مذاق اڑاتے، کہ غلامی ختم ہو گی کیسے ہو گی کون کرے گا۔۔۔ کس کو موت آئی ہے عذاب اپنے سر لینے کی۔۔۔۔ پاگل ناقابل برداشت ہو جاتا تو وہ اسے پتھر مارتے مگر وہ پاگل بھی ڈھیٹ تھا مار کھاتا رہتا مگر پھر شروع کر دیتا وہی رام لیلا۔۔۔ آخر لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔۔۔۔۔۔ بس وہ پاگل روز صبح شروع ہو جاتا۔۔ ایک دن ایک بچہ باپ کے ساتھ کسی کام کی غرض سے دوسرے شہر جا رہا تھا۔۔۔۔ راستے میں اس کا پالا پاگل سے پڑا، وہ وہیں بیٹھے وہی سب چلا رہا تھا۔۔۔۔ کہ اٹھ جاو۔۔۔۔۔ کب تک غلامی کرو گے۔۔۔۔ اس بچے کے ذہن میں یہ بات پھنس گئی۔۔۔ ایک تحریک پیدا ہو گئی۔۔۔۔ وہ اب اسی کے متعلق صبح شام سوچتا۔۔۔۔ اسے تو اس سے پہلے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ غلامی کیا چیز ہے مگر اب سوال پیدا ہونے لگے جو اسے الجھا رہے تھے۔۔۔
اس نے اپنے دوستوں کے ہر سوال کو کھوجنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ ان کے جواب کی تلاش شروع کر دی۔۔۔ وہ فرق جان گیا اور غلامی سے نفرت کرنے لگا۔۔۔۔۔ اب آزادی کی خواہش اسے ستانےلگی۔۔۔۔۔۔۔۔ غلامی سے نجات ہی اسکا مقصد بن گیا۔۔۔۔ اسکا اٹھنا بیٹھنا سوچنا سمجھنا سب کچھ بدل گیا۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ تیس سال بعد وہ بچہ اس شہر کو آزاد کرا کر اسکا حکمران بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
پاگل کا تبدیلی کا وہ الاپ کام کر گیا۔۔۔ لوگ کہتے رہے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ ہم غلام پیدا ہوئے تھے۔۔۔ اور غلام ہی مریں گے۔۔۔۔ کہاں سے آزادی آئے گی کون لائے گا۔۔۔۔۔ وہ سب آزادی چاہتے تو تھے مگر ان میں سے کوئی بھی اس کےلیے کوشش کرنے کو تیار نہ تھا۔۔۔۔ خود اپنی سوچ کو بدلنے کےلیے تیار نہ تھے سو ان کےلیے بدلاو نہیں آیا وہ غلام ہی مر گئے مگر جس نے اس کی قیمت ادا کی۔۔۔ اسکی خاطر کوشش کی، اس نے آزادی حاصل کر لی۔۔۔۔
ایسے ہی ہم لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ حالات بدلیں۔۔۔۔ تبدلی آئے۔۔۔ لوگ خوشحال زندگی گزاریں۔۔۔ دنیا اچھی ہو جائے۔۔۔۔ معاشرہ خوبصورت ہو جائے۔۔۔۔۔۔ کوئی دھوکہ نہ دے۔۔۔۔۔ کوئی جھوٹ نہ بولے۔۔۔۔۔ سب کردار کے اعلی ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ترقی کر جائیں۔۔۔۔ مگر اس سب کےلیے مجھے کچھ نہ کرنا پڑے میں رات کو سو جاوں اور جب میں صبح اٹھوں تو سب بدل چکا ہو۔۔۔۔۔ دنیا امن کا گہوارہ بن چکی ہو۔۔۔۔ تبدلی آ چکی ہو۔۔۔۔۔ بلکل ایک نئی دنیا میری منتظر ہو۔۔۔۔ جیسے لوگوں نے عمران خان کو ووٹ ڈالتے ہوئے نئے پاکستان اور تبدیلی کے متعلق سوچا تھا کہ بس عمران خان وزیراعظم کا خلف لیں اور اللہ تعالیٰ نیا پاکستان ہمیں گفٹ کر دیں گے۔۔۔ مگر کیا ہو ابھی تک ہم انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے مگر تبدیلی ہے کہ منہ ہی موڑے بیٹھی ہے۔۔۔۔ مان ہی نہیں رہی۔۔۔۔ اب تو لوگ خواہش کرنے لگے ہیں کہ نیا نہیں پرانا پاکستان ہی واپس کردو۔۔۔۔۔ مسئلہ پتا ہے، دراصل کیا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں سب مل جائے اور ہمیں کچھ کرنا بھی نہ پڑے۔۔۔۔ سب اچھا ہو جائے، ہم بے شک ویسے ہی رہیں کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔
جناب جب بیس کی بیس کروڑ عوام یہی سوچے گی تو فرق تو ٹھیک ٹھاک پڑنا ہے۔۔۔ جناب اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا۔۔۔ میں کسی شخص کو نہیں بدل سکتا جب تک اس تبدیلی کو میں خود نہ مانوں۔۔۔۔۔ میں بدل گیا تو سب بدل جائے گا مگر افسوس یہ کہ سب بدل جاتا ہے، بس اک میں ہی نہیں بدلتا۔۔۔۔۔ اب ایسے میں تو کچھ نہیں بدل سکتا۔۔۔۔ اور پھر ہم کو سب کچھ فوری (instant) چاہیے۔۔۔۔ اب ایسے تھوڑی ہوتا ہے۔ ہر کام کو کرنے کا طریقہ ہوتا ہے اور اس کے ہونے میں وقت لگتا ہے۔۔۔ ہمارا کام تو ہے بھئی لگے رہو اور لگے رہو۔۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ مالی دا کم پانی پانا۔۔۔ مالک دا کم پھل پھول لانا۔۔۔۔ اور جب تک ہم خود کوشش نہیں کریں گے، کچھ ٹھیک ہونا بھی نہیں۔۔۔۔۔