Sheikh Haseena Wajid Aur Bangladeshi Awam
شیخ حسینہ واجد اور بنگلہ دیشی عوام
شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا سورج تقریبا 20 سال بعد بالاخر غروب ہوگیا، آخر بنگالی عوام شیخ حسینہ واجد سے اتنی متنفر کیوں تھی جبکہ حالات یہاں تک آ پہنچے کہ بنگلہ دیش کی سب سے مضبوط لیڈر اور آہنی خاتون کہلانے والی شیخ حسینہ واجد کو صرف 45 منٹ کا وقت دیا گیا کہ وہ استعفی دیں اور اپنے ملک سے جلد از جلد نکل جائیں ورنہ وہ بھی کہیں اپنے باپ شیخ مجیب الرحمن جیسی قسمت سے دو چار نہ ہو جائیں یعنی کہیں ان کا بھی قتل نہ ہو جائے۔
دوستوں اس ساری کہانی کو جاننے کیلئے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینا ضروری ہے تو آئیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر اس کے پیچھے چھپے حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں شیخ مجیب الرحمن جسے بنگلہ دیش میں (بانگا بندو) یعنی بڑے بھائی کے نام سے بطور عزت بلایا اور یاد کیا جاتا ہے۔
1971 میں آزادی کے فورا بعد بنگالی عوام اپنے بانی شیخ مجیب الرحمن کے خلاف ہونے لگے تھے کیونکہ اس علیحدگی کے پیچھے بنگالی عوام اور لیڈرشپ میں ایک نظریاتی تقسیم شروع سے تھی ابھی بنگلہ دیش کی آزادی کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک جلسہ ہوا یہ 17 ستمبر 1972 کی بات ہے یہ پلٹن کا وہی تاریخی میدان تھا جس میں جنرل نیازی نے جنرل جنگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔
اس گراؤنڈ میں تقریبا ایک لاکھ کے قریب بنگالی جمع ہو کر شیخ مجیب الرحمن کے خلاف نعرے لگا رہے تھے مکتی باہنی کے ایک سابق جنگجو عبدالرب جو 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ لڑ چکے تھے شیخ مجیب الرحمن کے خلاف ایک دھواں دھار تقریر کی انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو اڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا آپ تو کہتے تھے آزادی کے بعد بنگلہ دیش میں کوئی بھوک سے نہیں مرے گا، کرپشن، مہنگائی، پولیس تشدد، قحط سالی، نا انصافی لا قانونیت، اور ایسے ہی بے شمار مسائل کا خاتمہ ہوگا، مگر یہ سارے معاملات تو پہلے سے زیادہ گمبھیر ہو چکے ہیں یعنی آپ کی کابینہ تو ان سے بھی زیادہ کرپٹ اور بے ایمان نکلی جن سے آپ نے آزادی حاصل کی، یہ بات انہوں نے ایک طنزیہ مائنڈ سیٹ کے طور پر کہی تھی۔
عبدالراب نے سب سے زیادہ سخت جملہ شیخ مجیب الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا آپ بنگلہ دیشی عوام کے خلاف فوج کو ہرگز استعمال نہیں کر سکتے اگر آپ نے ایسا کیا تو فوج آپ کے خلاف کاروائی کرے گی اور ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی۔
یہ بات اس جانب اشارہ کر رہی تھی کہ شیخ مجیب الرحمن ایک ڈکٹیٹر کی طرح عوامی جذبات کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے جیسا کہ اب شیخ حسینہ واجد کر رہی تھیں۔
شیخ مجیب الرحمن اشارے دے رہے تھے کہ ان لوگوں کے خلاف فوج کو استعمال کیا جا سکتا ہے یا ان کے خلاف فوجی ایکشن ہو سکتا ہے اسی پر عبدالرب نے بات کی تھی لیکن یہ ایک احتجاج تھوڑی تھا بنگلہ دیش میں تو آزادی کے اگلے ہی سال پورے ملک میں سیاسی مخالفین کی طرف سے احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔
بنگلہ دیش "اے لیگیسی اف بلڈ" مشہور کتاب لکھنے والے مصنف انتھونی مسکارنہاس لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن محض آزادی کے تین سال بعد ہی بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ قابل نفرت ہستی بن چکے تھے یہ وه مصنف تھے جن کے تعلقات شیخ مجیب الرحمن کی فیملی سے اچھے اور دوستانہ تھے وہ لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن مسلسل ایک ڈکٹیٹر کی طرح تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے جو بھی اس کے اس عمل کی مخالفت کرتا ان پر الزام لگا دیا جاتا کہ یہ تو ماضی میں پاکستانی فوج کے ساتھ ملے ہوئے تھے یعنی پاکستانی فوج کے ایجنٹس تھے۔
مارچ 1973 میں بنگلہ دیش میں پہلے عام انتخابات ہوئے اسی دوران بنگلہ دیش کے تین بڑے شہروں ڈھاکہ، چٹا گانگ اور کھلنا میں سٹوڈنٹس نے شیخ مجیب الرحمن کے خلاف جلوس نکالے لیکن بانگا بندو نے اپنے ڈنڈا بردار حامیوں کے جتھے بھیچ کر اس احتجاج کو پوری طاقت سے کچل ڈالا۔
اس الیکشن میں شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ کو کامیابی ملی جس نے 300 سیٹوں میں سے 293 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی یعنی 98 فیصد سیٹس حاصل کر لی۔ لیکن شیخ مجیب الرحمن اس کامیابی سے بھی مطمئن نہیں تھے وہ الیکشن کے بغیر ہی اپنی حکومت کو طول دینا چاہتے تھے۔
اس لیے مارچ 1975 میں شیخ مجیب نے ملک میں ون پارٹی سسٹم نافذ کر دیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ اب شیخ مجیب الرحمن زندگی بھر کے لیے ایک ڈکٹیٹر کی طرح ملک پر حکمرانی کریں گے اور ان کے فیصلوں کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ان کی موت کے بعد بھی ان کی پارٹی حکمران رہے گی جیسا کہ آج شمالی کوریا اور چین میں کچھ ایسا ہی سسٹم نافذ ہے کچھ انہی سے ملتا جلتا نظام شیخ مجیب نے قائم کر دیا تھا۔
یہاں سے پھر بنگلہ دیشی فوج کا حکومت میں عمل دخل شروع ہوتا ہے کیونکہ ملٹری میں طاقتور لوگ موجود تھے انھیں شیخ مجیب الرحمن کا یہ اقدام پسند نہیں ایا انہوں نے سازشیں تیار کیں اور چند ماہ بعد بغاوت کر دی۔
15 اگست 1975 کی صبح 120 بنگالی فوجی پانچ ٹرکوں میں بیٹھ کر وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے گھر کے باہر تعینات پولیس اہلکاروں نے تو فوجیوں کو دیکھتے ہی سرنڈر کر دیا، لیکن شیخ مجیب کے مسلح گارڈز نے فوجیوں کو دیکھتے ہی ان پر فائر کھول دیا جس میں ایک فوجی مارا گیا اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا اس پر جوابی کاروائی میں فوجیوں نے بھی فائرنگ کرکے گارڈز کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے گھر کی تلاشی لینا شروع کر دی اسی دوران شیخ مجیب کے دو بیٹے جمال اور کمال نے سٹین گنز سے فوجیوں پر فائرنگ کرنا شروع کر دی ان کی گولیوں سے دو مزید فوجی زخمی ہو گئے لیکن یہ دونوں زیادہ دیر تک فوجیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے اور ایک، ایک کرکے مارے گئے۔
اس دوران ایک بنگالی میجر محی دین نے شیخ مجیب الرحمن کو تلاش کر لیا بانگا بندو کرتا لنگی پہنے کھڑے تھے اور ہاتھ میں پائپ پکڑا ہوا تھا شیخ مجیب نے بنگالی میجر سے پوچھا کہ آخر تم چاہتے کیا ہو؟ تم مجھے قتل کرنے آئے ہو۔
بھول جاؤ جب پاکستانی آرمی ایسا نہیں کر سکی تو تم کون ہو ایسا سوچنے والے، میجر شیخ مجیب الرحمن کا اعتماد دیکھ کر گھبرا گیا لیکن اسی دوران ایک اور بنگالی میجر نور نے آگے بڑھ کر فائرنگ کر دی گولیاں بانگا بندو کے دائیں حصے میں لگیں اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئے۔
اس روز کے قتل عام میں ان کے تین بیٹے دو بہوہیں اور ایک بھائی کا قتل ہوا تھا ان کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ اس وقت یورپ میں تھیں اس لیے وہ دونوں محفوظ رہیں جو کہ بعد میں پھر شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم بھی بنی۔
دوستوں یہ کچھ ایسے تاریخی حقائق ہیں جن کی بنا پر بنگالی عوام دہائیوں سے شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ کے خلاف تھے یہی وہ عوامل، عناصر اور وجوہات تھیں جنہوں نے نا صرف شیخ مجیب الرحمن بانگا بندو کا خاتمہ کیا بلکہ ان کی بیٹی شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ بھی پلٹ دیا۔