1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Khan/
  4. Qissa Mazi Ka

Qissa Mazi Ka

قصہ ماضی کا

1995، 1996 کی بات ہے، جب زندگی نےعمر کے اس دہانے پر لاکھڑا کیا، جہاں سے عقل و شعور نا صرف زمانے کی تمام تر رعنائیوں کو سمجھنے کے قابل ہو چکے تھے، بلکہ محسوسات اور احساسات جیسی خوبصورت کیفیات سے بھی آشنا ہو چکے تھے۔ نئی نئی سائیکل چلانا سیکھی تھی، کیونکہ پرائمری اسکول سے اب ہائی اسکول کا سفر شروع ہونے والا تھا اور سائیکل سيكھنا وقت کی ضرورت تھی، وه اس لیے کہ گاوں سے ہائی اسکول کا فاصلہ کافی تھا، گویا سائیکل سیکھنا ضرورت کے علاوہ خوشی کا سبب بھی تھی۔

یہ گمان بھی ہونے لگا تھا کہ اب بچپن کی سرحدیں ختم اور جوانی کی حدود شروع ہو گئی ہیں، لہذا بہت ساری پابندیوں سے بھی جان چھوٹنے والی ہے۔ مثلا شادی بیاہ پر جانا، دوستوں کی محفلوں میں اُٹھنا بیٹھنا اکیلے بازار جانا وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سب ایک حد تک ممکن ہو سکا، پابندیاں تو ختم ہوئیں، مگر کچھ شرائط کے ساتھ تاکہ جوانی کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہم خود سر اور بگڑ نہ جائیں۔ تاہم ہم لوگ اب باقاعدہ شادیوں پر جانے لگے تھے اور دوستوں کی محفلوں کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔

ہم پانچ، چھ جوان ایسے تھے، جو تقریبا ہم عمر تھے اسکول بھی ساتھ جایا کرتے تھے۔ جب ہفتے میں ایک آدھ چھٹی ہوتی تو باقاعدہ پروگرام بھی ترتیب دیا جاتا تھا۔ چونکہ آزادی اتنی زیادہ مہیا نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے چند ایک محفلیں ایسی ہوتی جنہیں پوشیدہ رکھا جاتا، سوائے ہم دوستوں کے کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوتی۔ کیونکہ ان محفلوں کے پیچھے کچھ ایسے راز دفن ہیں، جنہیں میں آج الفاظ کی بدولت آپ لوگوں پر آشکار کرنے جا رہا ہوں۔

جوانی کا آغاز تھا اور وی سی آر کا بول بالا تھا، پیسوں کی بھی کمی ہوتی، لہذا خاص اس دن یعنی پروگرام کے لئے اسکول کی پاکٹ منی سے پیسے جوڑے جاتے اور مقررہ دن پر وی سی آر کا بندوبست ہوتا وی سی آر لانے اور لے جانے پر جس کی ڈیوٹی لگتی وہ محفل کی تمام پتی سے مبرا ہوتا، کیونکہ وی سی آر دیکھنا اس زمانے کے معاشرے میں کافی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ کام دشوار گزار اور جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر تھا۔ اس لئے وی سی آر کو لانا اور لے جانا اس خفیہ انداز سے ہوتا کہ بازار سے حجرے تک کوئی اسے دیکھ نہ پائے۔

زیادہ تر اس طرح کے پروگرام سردیوں کی یخ بستہ راتوں کو بنتے کیونکہ رات کی طوالت اور سردی کی شدت شام ڈھلتے ہی لوگوں کو گھروں میں گھسنے پر مجبور کر دیتی جس کی وجہ سے ہماری محفلیں بغیر کسی رکاوٹ کی خوب رنگین ہوتی سردیوں کی ٹھنڈی اور طویل راتیں ہو اور کھانے پینے کا انتظام نہ ہو تو بات کچھ ادھوری سی نظر آتی ہے۔ اس لئےطعام شب کی بھی خوب تیاری ہوتی اب طعام شب کے انتظامات کیسے ہوتے، اس کی کہانی کچھ الگ اور انوکھی ہے۔

میرا بچپن سے جوانی تک کا سارا سفر نانا نانی کے گھر میں گزرا ہے، تو اس ساری کہانی کا تعلق بھی اسی جگہ سے جڑا ہے، لہذا اس کا حوالہ دینا ضروری سمجھا۔ بہرحال واپس لوٹتے ہیں کہانی کی طرف، طعام شب کیلئے مرغ مصالحہ جات، گھی، پیاز، ٹماٹر کا انتظام تو ہوتا، مگر بازار سے نہیں کیونکہ پیسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ سب ہم بازار سے افورٹ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کا حل ہم یہ نکالتے کہ گھی، مصالحہ جات، پیاز، ٹماٹر کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کچھ دوستوں کی ڈیوٹی لگائی جاتی۔ کہ حسب ضرورت اپنے اپنے گھروں سے چھپا کر اس سارے سامان کو پورا کیا جائے۔

جبکہ مرغ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ حل ہوتا کہ ہر گھر کا نمبر رکھا گیا تھا اور ہر محفل کے دوران مرغ کو باری کے حساب سے گھر سے بڑے ماہرانہ طور پر چوری کیا جاتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں عورتیں دیسی مرغیاں خوب پالا کرتی تھی اور تقریبا ہر گھر میں مرغیوں کا پولٹری فارم سا ہوتا تھا، تو مرغ اور وہ بھی دیسی بالکل فری میں دستیاب ہوتا۔ مرغ کو اس طریقہ سے ذبح کرکے کاٹا جاتا۔ کہ صبح دیکھنے والوں کو یہ گمان ہو کہ رات یہ مرغ کسی گیدڑ وغیرہ کا شکار ہوا ہے۔

یقین مانیں ہمارے ماہرانہ فن سے عورتیں یہی نتیجہ اخذ کرتیں، کہ رات ان کا مرغ کسی گیدڑ کی بھینٹ چڑھ گیا، اس زمانے میں گاؤں میں اکثر عورتیں صبح صبح برتن دھونے کے لئے اکٹھی مل بیٹھ کر خوب گپپیں لگایا کرتیں اور اکثر یہ ذکر ضرور کرتی کہ رات ہمارے مرغ پھر کسی گیدڑ کا شکار ہوئے ہیں، کوئی کہتی میری پچھلے ہفتے نازوں سے پلی مرغی ایسے ہی کسی گیدڑ کا شکار ہوئی، تو کوئی کہتی میری خوب انڈے دینے والی مرغی کا بھی یہی حال ہوا۔

اب ان بچاریوں کو کیا معلوم کہ ان کی مرغیاں اور مرغ ہر ہفتے کیسے اور کن گیدڑوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ وه دل ہی دل میں گیدڑوں کو کوستیں، جبکہ اصل گیدڑ ان کے سامنے گھومتے پھرتے اور وه بیچاریاں اس سارے معاملے سے بے خبر ان گیدڑوں کو بد دعائیں دیتیں، جنہوں نے شاید کبھی ان کی مرغیوں کو دیکھا تک نہ ہوگا۔

Check Also

Hum Ye Kitab Kyun Parhen?

By Rauf Klasra