Pardesi Aur Dard
پردیسی اور درد
پردیسی یعنی وہ لوگ جو ملک سے باہر کسی دوسرے ملک کام کاج کے سلسلے میں زندگی بسر کر رہے ہوں، پردیسی کہلاتے ہیں۔ پردیسی اور درد ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیونکہ کبھی پردیسی درد پر حاوی ہوتا ہے، تو پھر کبھی درد پردیسی پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کی انگلی پکڑ کر چلتے رہتے ہیں۔آج جو کہانی میں لکھنے جا رہا ہوں، وہ صرف میری کہانی نہیں بلکہ ہر اس پردیسی کی کہانی ہے، جو زندگی میں شاید بار بار ایسے درد کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔جب کوئی بھی پردیسی چھٹیاں گزارنے اپنے ملک اپنے وطن آتا ہے ،تو یہ اس کی زندگی کا پرمسرت اور حسین دور ہوتا ہے۔ اور یہ اس کی زندگی کا ایک ایسا وقت ہوتا ہے جس میں وه ہر قسم کے درد پر حاوی ہو جاتا ہے، اور اسی خوشی میں وہ ہر قسم کا درد سہہ جاتا ہے۔
اس کے برعکس جب کوئی بھی پردیسی اپنی چھٹیاں گزار کر واپسی کا راستہ پکڑتا ہے،تو یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب درد اس پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا جان لیوا درد ہوتا ہے۔ جو اس کے چہرے سے عیاں تو ہوتا ہے ،مگر سوائے اس کے کوئی اور اسے محسوس نہیں کر سکتا۔اگر آپ لوگ کبھی اس درد کو دیکھنا چاہیں،تو ایک چکر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا ضرور لگالینا، وہاں آپ کو ایسے چہرے نظر آئیں گے ،جو درد کی سختی سے پیلے زرد اور مرجھائے ہوئے ہوں گے۔ وہاں آپ کو ایسے لوگ نظر آئیں گے ،جو زندہ تو ہوں گے ،مگر زندگی کی چمک ان میں نہیں ہوگی۔ وہ کیوں؟ آئیے جانتے ہیں میری اس کہانی کے ذریعے۔
میں بھی چھٹیاں گزارنے اپنے وطن اپنے ملک آیا اور دو مہینے کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔پھر آخر کار وہ دن آگیا جب مجھے بھی اسی درد کا سامنا کرنا تھا۔ میں دل میں سوچتا کہ کاش گھڑی کی سوئیاں ٹھہر جائیں یا دن اور راتیں لمبی ہو جائیں ،کہ مجھے اس درد بھرے لمحے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر گھڑی کی سوئیاں بھی بھلا کسی کے لیے رکی ہیں ،جو میرے لئے رک جاتی۔ میرے جانے کے ایک دن پہلے ہی میرے بیٹے کو یہ بھنک پڑ گئی ،کہ میرا ابو واپسی کی تیاریاں کر رہا ہے، تو وه بھی بضد ہو گیا ،کہ اس بار میں بھی آپ کے ساتھ دبئی جاؤں گا۔میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے کہا ٹھیک ہے۔ اب اس معصوم کون سمجھائے ،کہ انسانوں کا یہ سماج قانون کی بے رحم زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
میرا وہ بیگ جس میں استعمال کے کپڑے اور میرا کچھ سامان پڑا تھا۔ وہ اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا ،اور اپنی ماں سے سوال کرنے لگا ،کیا میرے کپڑے بھی اس میں رکھ دیے ہیں۔ جب اسے جواب ہاں میں ملا ،تو اپنے کپڑے دیکھنے کی ضد کرنے لگا ،جب یہ کہہ کر اسے تسلی دی گئی۔چونکہ آپ کے کپڑے بیگ کے نچلے حصے میں ہے اوپری حصے میں آپ کے ابو کے کپڑے اور سامان پڑا ہے ،جس کی وجہ سے آپ کے کپڑے اپ کودیکھانا ممکن نہیں ہیں۔ جب اس جواب سے بھی اس کی تسلی نہ ہوئی تو خود ہی اس نے اپنی جرابیں اور ہاتھ کے دستانے بیگ کی سائیڈ والی جیب میں رکھے ،جنہیں ہر پانچ منٹ بعد چک بھی کرتا۔
چونکہ میری فلائٹ کا ٹائم رات تین بجے کا تھا ،اور مجھے اسی رات نکلنا تھا۔ تو دوست احباب رشتہ دار باری باری ملنے آرہے تھے۔ جس سے اُسے یہ سمجھنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگی ،کہ ہمیں آج ہی نکلنا ہے۔ لہذا سونا تو دور کی بات لمحہ بھر کے لئے بھی اپنی آنکھیں بند کرنے کو تیار نہ تھا۔ اور میں تھا کہ کسی بھی قیمت پر اسے سلانہ چاہتا تھا۔ بہرحال میں نے اسے بہلا پھسلا کر اور یہ کہہ کر سلانہ شروع کیا ،کہ کل ہم دونوں پہلے شناختی کارڈ بنوائیں گے ،کیونکہ شناختی کارڈ کے بغیر تو ہم دبئی جا ہی نہیں سکتے اور پھر کہانیاں سنتے سنتے نہ جانے کب نیند کی وادی میں چلا گیا ،اور میں اسے سوتاہوا ائیرپورٹ کے لیے نکلا۔
دوستویقین مانیں یہ وہ گھڑی اور لمحہ تھا ،جیسے روح جسم سے جدا ہو رہی ہو۔جب میں اللہ کے فضل و کرم سے دبئی پہنچا دوسرے دن اس کا حال احوال پوچھنے کیلئے میں نے فون کیا اور پھر جو میرے کانوں نے سنا۔ حسب معمول وه تھوڑا بہت دیر سے اٹھتا تھا ۔لیکن اس رات صبح کی اذان ہوتے ہی اس کی آنکھیں کھل گئی ،اور وہ مجھے اپنے آس پاس نہ پا کر دوڑا، رویا اور چلایا کسی نے اس سے کہا کہ تمہارا ابو دوسرے کمرے میں ہے، تو کسی نے اسے یہ کہا کہ تمہارا ابو تو شناختی کارڈ بنوانے گیا ہے۔ جب اسے پختہ یقین اور تسلی ہوگئی کہ رات اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے تو بقول اس کی ماں کے وه اتنا رویا کہ اس کی ناک، ہونٹ، آنکھیں، اور پورا چہرہ سوج گیا ۔
یہ سب کچھ سنتے ہی میرے اندر درد کا ایسا طوفان امڈ آیا ،کہ ایک ہفتے تک میرے کولیکس میرے ُمرجھانے کی وجہ پوچھتے رہے ،لیکن انہیں کیا پتا کہ میں اندر ہی اندر درد کے کون سے طوفان سے لڑ رہا تھا۔آپ لوگوں میں سے اگر کسی کے بھائی بیٹے پردیسی ہیں، تو خدارا ان لوگوں کی قدر کریں،کیونکہ پردیسی اپنے جذبات قربان کرکے اپنوں کے لیے خوشیاں خریدتے ہیں۔