1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Khan/
  4. Dost, Haseen Lamhat Aur Gandiali Dam

Dost, Haseen Lamhat Aur Gandiali Dam

دوست، حسین لمحات اور گنڈیالی ڈیم

زندگی مٹھی میں بھری ریت کی مانند ہے جو پلک چھپکتے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے اور برف کے اس گولے کی طرح ہے جو پل بھر ہی میں پانی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یا پھر کیلنڈر پر چھپے سیاہی کے ان ہندسوں کی طرح جو ہر انے اور گزرنے والے دنوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

زندگی کو اگر کوئی چیز خوبصورت بناتی ہے تو وه ہیں اس کے بیتے ہوئے وه حسین لمحات جو یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی لمحات زندگی کے قیمتی اثاثے ہوتے ہیں جن کے تصور سے انسان اپنی زندگی کے تلخ لمحات کو بھی خوشگوار بنا سکتا ہے۔ میری زندگی کے کچھ ایسے ہی لمحات جنہیں میں الفاظ میں تبدیل کرکے اپ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

مجھ پاکستان آئے ہوئے تقریبا پندرہ سے بیس دن گزر چکے تھے۔ وه ایک جمعہ کا خوبصورت دن تھا حسب معمول صبح کی نماز اور ناشتے کے بعد میں اپنی دکان کے لئے نکلا اور زندگی کی گہما گہمی میں کھو گیا اسی دوران میرے بھائی قصیر محمود کا موبائل اپنی مخصوص رنگ ٹون سے گونجنے لگا جب اس نے کال رسیو کی تو دوسری طرف مدھر اور دھیمی آواز سے حسن خاکسار کانوں میں رس گھولنے لگے چونکہ میرے پاس اس وقت تک پاکستانی سم موجود نہیں تھی تو میرے رابطے کا واحد ذریعہ میرے بھائی کا موبائل ہی تھا۔

سلام دعا کے بعد ملاقات کیلئے ہماری دکان کا انتخاب کیا گیا اور پھر چند لمحات کے بعد حسن خاکسار اپنی پرکشش شخصیت کے ساتھ ہماری دکان پر موجود تھے اپنی خوبصورت روایات کے مطابق ہم لوگ بغل گیر ہوئے ایک دوسرے سے حال چال پوچھا اور اپنی علاقائی سوغات چائے کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی۔

تھوڑی دیر بعد ہم بازار کے لیے نکلے مین بازار پہنچتے ہی حسن خاکسار کے کزن اور ایک بہترین شخصیت کے مالک سید ولی کے ساتھ کا اضافہ ہوا آپس میں رسمی، علاقائی، سیاسی گپ شپ کے بعد طے پایا کہ اس موقع کو غنیمت جان کر ان لمحات کو مزید حسین یادوں کا حصہ بنایا جائے جس کے لیے گنڈیالی ڈیم کے مقام کو چنا گیا ۔

کیونکہ جمعہ کا بابرکت دن تھا تو پکنک کا ٹائم نماز جمعہ کے بعد مقرر ہوا۔ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعدآوٹنگ کے لیے ضروری اشیاء یعنی کھانے پینے کے سامان کی خریداری ہوئی اور پھر حاجی فہیم کی آرام دہ کار میں اپنی منزل کیلئے دعائے سفر کے بعد روانگی ہوئی۔

راستے میں ہر پاکستانی کی طرح پاکستانی سیاست اور موجودہ حکومت پر بحث چھڑی جو ہوتی ہوئی کرکٹ پر جاپہنچی چونکہ حال ہی میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آغاز ہوا تھا اور آج پاکستان بمقابلہ افغانستان ہونا تھا۔ حسن خاکسار کی رائے تھی کہ مقابلہ جو بھی جیتے افغانستان کو سراہنا بنتا ہے۔

جبکہ حاجی فہیم سید ولی اور خود مجھے بھی حسن خاکسار کی رائے سے اختلاف تھا اور ہمارے خیالات حسن خاکسار کے مقابلے میں اس بارے میں تھوڑے بہت سخت تھے۔ بہرحال اسی گرماگرم بحث کے دوران ہم لوگ اپنی منزل مقصود کے قریب جا پہنچے اور ہماری گاڑی پہاڑی دشوار رستوں پر رینگنے لگی۔

گاڑی پہاڑی راستے پر رینگتے رینگتے اس مقام پر ٹھہری جسے سید ولی اور حسن خاکسار نےآوٹنگ کے لیےپرفیکٹ جگہ قرار دیا اور پھر سید ولی اور حسن خاکسار نے اپنے روایتی انداز میں گوشت کو چٹ پٹے مصالوں سے آراستہ کر کے کوئلے کی مدد سے خاص قسم کے مگر خوبصورت پنجرے میں قید کر کے بھوننا شروع کیا۔

جو لگ بھگ آدھے گھنٹے کے بعد تیار ہو گیا اور جس کی لذیذ خوشبو نے نہ صرف ہماری بھوک کو بڑھایا بلکہ آس پاس کے مقام کو بھی مہکا دیا۔ بس ہم سب دوست مزید بھوک پر قابو نہ پا سکے اور بھنے ہوئے گوشت کو روایتی پلاؤ اور ٹھنڈی ٹھار کولڈرنگ کے ساتھ نوش کیا۔

ذائقہ دار طعام نوش کرنے کے بعد چائے کا اہتمام نہ ہو تو دعوت ادھوری نظر آتی ہے اس لئے دودھ پتی چائے مگر چینی کے استعمال کے بجائے گڑ کی بنی چائے نے دعوت کے سرور میں کچھ الگ ہی رنگ بھر دیئے۔

اس کے بعد نماز عصر باجماعت ادا کی اور ڈیم کے پر فضا مقام سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ان حسین لمحات اور خوبصورت یادوں کو کیمرے کی آنکھ سے بھی محفوظ کیا یوں اس مختصر سی دعوت کا اختتام ہوا جسے کیمرے کی آنکھوں سے محفوظ کرنے کے علاوہ اس نا چیز نے الفاظ میں بھی محفوظ کر لیا اور ساری دعوت کے احوال کو الفاظ کی شکل میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔

Check Also

Jamhoor Ki Danish Aur Tareekh Ke Faisle

By Haider Javed Syed