Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Election 2024 Aur 9 May Ka Bayaniya

Election 2024 Aur 9 May Ka Bayaniya

الیکشن 2024 اور نو مئی کا بیانیہ

آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات ہوئے۔ آخری وقت تک انتخابات پر بے یقینی کے بادل چھائے رہے مگر سب کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے اوپر یقین تھا کہ وہ کسی کو بھی گڑبڑ کرنے کا موقع نہیں دینگے اور ایسا ہی ہوا۔ ملک کے خراب معاشی صورتحال اور صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کے ابتر صورتحال کے پیش نظر کئی سیاسی جماعتوں نے الیکشن ملتوی کرانے کےلئے کوششیں کی مگر بے سود ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی ایک وفاقی اور صوبائی کابینہ کے نگران وزراء نے بھی اپنے تئیں الیکشن نا کروانے کے بھرپور وکالت کی مگر وہ بھی ناکام ہوئے۔

اس کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی تھے۔ ورنہ اگر دیکھا جائے تو طاقتور حلقوں میں کوئی بھی الیکشن کرانے کے حق میں نہیں تھا۔ جب صدر نے چیف الیکشن کمیشنر کو انتخابات کی تاریخ دینے کے لئے ایوان صدر بلایا تو انہوں نے جانے سے انکار کردیا۔ جب نگران وفاقی وزراء سے الیکشن کے تاریخ کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ کہتے تھے کہ الیکشن کا تاریخ دینا تو ہمارا کام ہی نہیں ہیں۔ یہ تو پی ڈی ایم اپنے حکومت کے آخری دنوں میں کی گئی قانون سازی کے مطابق الیکشن کمیشنر کا اختیار ہے کہ وہ جب چاہیں الیکشن کروائے۔ حالانکہ انہوں نے ایک دفعہ بھی بطور وفاقی حکومت الیکشن کمیشن سے یہ نہیں پوچھا کہ آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخابات ہونے چاہیں اور اس کے لئے آپ کی کیا تیاری ہے؟

خیر سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر آٹھ فروری کو ملک بھر میں انتخابات ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ سترہ فروری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سپریم کورٹ کے سامنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے بات سے مکر گئی۔ اور کہا کہ میں نے تو انتخابات کا حکم نہیں دیا تھا۔ بلکہ میں نے تو الیکشن کمیشنر اور صدر پاکستان کو انتخابات کی تاریخ دینے کےلئے اکٹھے بٹھایا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات کے التوا میں سب سے بڑی روکاوٹ سپریم کورٹ آف پاکستان تھا۔

انتخابات ہوئے اور اس کے نتائج اور نتائج آنے کا سلسلہ سب کے لئے حیران کن تھا۔ انتخابات کے نتائج میں التواء اور اس میں ردوبدل ایک الگ کہانی ہے۔ کہانی مگر اصل یہ ہے۔ کہ کس طرح بھرپور دھاندلی کے باوجود پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار ایک بڑی تعداد میں فاتح ٹھرے۔ اُن کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کا اس قدر بڑی تعداد میں انتخابی عمل جیتنا اکثریت کےلئے حیران کن تھا۔ اس لئے نہیں کے اُن کی کوئی سپورٹ نہیں تھی اور اچانک سے انہوں نے اتنے زیادہ ووٹس لئے۔ بلکہ اسلئے کہ کس طرح نو مئی کے بعد ان کو غدار قرار دیکر پوری پارٹی پر زمین تنگ کردی گئی۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ پریس کانفرنسز کروائے گئی اور مین سٹریم میڈیا پر ان کا نام لینا جرم قرار دیا گیا۔ انہیں انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا۔ سر عام کہا گیا کہ تحریک انصاف پر سرخ لائن کھینچی گئی ہیں اور ایک ایسا ماحول بنایا گیا کہ اُن کا اقتدار میں آنا تو کیا ان کے کسی امیدوار کا جیتنا بھی ایک معجزہ ہوگا۔ جب نتائج کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد یہ سارا بیانیہ ناکام ہوتا دیکھائی دینے لگا اور تحریک انصاف کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ تو یہ مقتدرہ کےلئے ہرگز منظور نہیں تھا۔ اور مقتدرہ سے زیادہ نواز شریف کےلئے کیونکہ وہ تو بتایا جاتا ہے کہ وزارت عظمی کا خواب لئے پاکستان آئے تھا۔

اُن کا وہ خواب تقریباً ٹوٹ چکا ہے اور اب اپنی ہار ماننے کے بجائے انہوں نے ایک بار پھر نو مئی کا بیانیہ اُٹھانے کے کوشش شروع کی ہے۔ جب تحریک انصاف نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی پر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا۔ تو محسن نقوی نے کہا کہ انہوں نے نو مئی پارٹ ٹو تیار کیا ہے اور ہم ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز ملک احمد خان، عطاء تارڑ اور مریم اورنگزیب بھی اپنے پریس کانفرنس میں بار بار نو مئی کا ذکر کرتے رہے اس طرح پنجاب کے متوقع وزیراعلی مریم نواز بھی اس قسم کے بیانات دیتی رہی ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ وہ کس کے تواسط سے یہ باتیں کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ بھول رہے ہیں۔

تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ پڑنے کی ایک وجہ نو مئی کے واقع کے بعد ان پر پڑنے والا کریک ڈاؤن بھی ہے کہ کس طرح ہر قسم کی قانونی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرکے اُن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سارا ڈرامہ عوام دیکھ رہی تھی۔ جس سے لوگوں کی ہمدردیاں تحریک انصاف سے مزید بڑھ گئی۔ اس کا نتیجہ آٹھ فروری کے صورت میں سامنے آیا۔ حالانکہ اُس وقت کچھ لوگ مقتدرہ کو یہ مشوریں دیے رہے تھے کہ نو مئی کے معاملہ میں پوری جماعت کو سزا دینا ہرگز کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اس سے الٹا آپ لوگوں کا نقصان ہوگا۔ کیونکہ اس واقعے میں جن بے قصوروں کو آپ پکڑیں گے۔ اُن کی عوام میں مزید حمایت بڑھے گی۔ اس لئے بہتر یہی ہے۔ کہ جو قصوروار ہے اُن کو سزایں دیے اور باقی پارٹی کو رہنے دیں۔ لیکن وہ نہیں مانے اور نتیجہ آپ سب کے سامنے ہیں۔

اب ایک بار پھر نو مئی کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کا یہ تباہ حال معاشی ملک ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ اپنا سینہ چوڑا کریں۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ بات چیت کےلئے بیٹھ جائے ناکہ اُن کے خلاف مزید محاظ کھول کر ملک کو کمزور کریں۔ کل ایک رپورٹ آئی ہے جس کے مطابق ہندوستان کے گاڑیاں بنانے والی کمپنی "ٹاٹا" کے کُل مالیت 165 ارب ڈالر ہوگی۔ جب پاکستان کے معشیت کی کل حجم 161 ارب ڈالر ہے۔ مطلب یہ کہ ہندوستان کی صرف ایک کمپنی پچیس کروڑ عوام کے ملک سے زیادہ دولت رکھتی ہیں۔

Check Also

Aakhir Kab Tak Fan Ho

By Syed Mehdi Bukhari