Thursday, 07 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Soch Badlen

Soch Badlen

سوچ بدلیں

بظاہر لڑکے میں کوئی کمی نہیں تھی۔ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی، پڑھا لکھا اور وجیہہ نوجوان تھا، تعلیم بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق تھی اور ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھا۔ ماہانہ اسی ہزار کے قریب کما رہا تھا۔ اس کی بہن کا میسج آیا اور اسی کے توسط مجھے پتا چلا کہ وہ کسی اچھے رشتے کی تلاش میں ہیں۔

میں نے رشتے کی ڈیمانڈ پوچھی تو کہا بس پڑھی لکھی شریف لڑکی ہو، ہمیں جہیز بھی نہیں چاہیے۔ میری ایک دوست بھی اپنی بہن کے رشتے کے لیے دو تین سال سے تلاش میں تھے۔ میں نے اس لڑکے کا نام تجویز کیا۔ دونوں گھرانوں کا رابطہ ہوا۔ وہ رشتہ دیکھنے آئے اور ان کو لڑکی پسند آ گئی۔

لیکن لڑکی والوں نے پہلے وقت مانگا اور پھر ٹالنے لگے۔ بظاہر انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی لیکن وجہ یہ بتائی گئی کہ ابھی لڑکے کی دو بہنیں بن بیاہی بیٹھی ہیں اس کے سر پر ذمہ داری ہے۔ ہمیں تو ایسا رشتہ چاہیے جس میں لڑکے کے بہن بھائی کم ہوں۔ خیر میں نے ان سے معذرت کر لی۔ کچھ دنوں بعد لڑکی کے گھر ایک اور رشتہ آیا وہ بھی ہر لحاظ سے اچھا تھا لیکن یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ گھر کرائے کا ہے اپنا گھر ہوگا تو ہم بیٹی کا رشتہ کریں گے۔ پھر اپنے ذاتی مکان والے بھی آئے لیکن لڑکے کا رنگ ذرا سانولا تھا۔ لڑکی نے تصویر دیکھ کر خود انکار کردیا۔ اسی دوران پنڈی سے ایک رشتہ آیا لڑکے کی نوکری سرکاری تھی، فیملی بھی چھوٹی تھی لیکن اعتراض اس بات پر تھا کہ لڑکے کی عمر کچھ زیادہ ہے (چھتیس سال)۔

بالاآخر دس بارہ رشتوں سے انکار کے بعد ایک امیر کبیر نوجوان کا رشتہ قبول کرکے لڑکی کو بیاہ دیا گیا۔ یہ سارا کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سوچنے لگی کہ ہمارے معاشرے میں عمومی سوچ یہ ہے کہ رشتے کے لیے لڑکی والوں کو دھکے کھانا پڑتے ہیں، انکار سننا پڑتا ہے، رد کیا جاتا ہے لیکن دیکھا جائے تو معاملہ دونوں طرف برابر ہے۔

رشتے کے لیے ایک لڑکے اور اس کے گھر والوں کو بھی بار بار رد کیے جانے کا سامنا ہے اور وجوہات بہت معمولی ہوتی ہیں وہی جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ رنگ، شکل، نوکری، مکان، فیملی اور دولت کی وجہ سے صرف لڑکی کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی بری طرح رد کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکیاں دہلیز پہ ہی عمر کی نقدی گنوانے لگتی ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں کہ زمانہ اتنا تبدیل ہوگیا ہے تو سوچ بھی تبدیل ہوجانی چاہیے۔ جس طرح لڑکی کی عزت نفس اور جذبات ہیں اور اسے رد کیے جانے کا دکھ ہوتا ہے۔

یہی کیفیت ایک لڑکے بھی ہوتی ہے جب اس کی مائیں بہنیں آ کر بتاتی ہیں کہ معمولی وجہ سے تمہیں مسترد کر دیا گیا ہے۔ یہ تو صرف ایک آنکھوں دیکھا واقعہ ہے، میں نے ایسے کئی گھرانوں کو بلاوجہ رشتے سے انکار کرتے دیکھا ہے جہاں لڑکے میں بظاہر کوئی کمی نہ تھی۔ لڑکی والوں نے معیار اتنا اونچا کرلیا ہے کہ وہاں کسی عام لڑکے کی پہنچ ہوہی نہیں سکتی۔۔ ٹی وی ڈرامے ہوں، قصے کہانیاں ہوں یا حقیقی زندگی، ظالم ہمیشہ لڑکے والے ہی گردانے جاتے ہیں۔ مگر حقیقت کیا ہے۔۔ کوئی کوئی جانتا ہے۔

Check Also

Masail Kya Tumhari Wajah Se Hain?

By Syed Mehdi Bukhari