Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Pehla Qadam To Uthaiye

Pehla Qadam To Uthaiye

پہلا قدم تو اٹھائیے

جس دن آپ جان گئے کہ آپ اپنی کس صلاحیت کو کام میں لا کر اپنی زندگی بدل سکتے یقین کیجیے آپ واقعی اس دن اپنی زندگی پہلے سے کہیں بہتر بنا لیں گے۔ اپنے آرام کو صرف پہلے دس سال قربان کریں اور پھر ساری عمر عیش کریں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کا خیال ہمیں تب آتا ہے جب ہم پچاس فیصد عمر کا حصہ گزار چکے ہوتے ہیں۔

بات صرف پہلا قدم، پہلا سٹیپ اٹھانے کی ہے اور پھر راہیں کھلتی جاتی ہیں۔ بیڈ پر لیٹ کر، یوٹیوب پر موٹیوشنل کہانیاں اور باتیں سننا بڑا آسان ہے لیکن بیڈ سے اتر کر عملی طور پر اپنی زندگی کے معیار کو بہتر کرنے والے کوئی کوئی ہوتے ہیں۔ کبھی سرکاری ملازمت کے خواب دیکھے جاتے تھے مگر آج کے دور میں سترہویں اور اٹھارہویں سکیل کا سرکاری ملازم بھی مقروض ہی ہے، تو پھر ملازمت کے ساتھ اپنا کام بھی شروع کیوں نہیں کرتے؟

ہمارے پاس فضول میں کالز کرنے کو گھنٹوں ہوتے ہیں لیکن ایک اچھا پلان بنانے کو چند منٹ بھی نہیں نکال سکتے، اس پر کام کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ آج سے چھ ماہ پہلے میری ہیلپر (شبو) نے میری مدد سے گھر کے تیار کردہ مصالحہ جات کا کام شروع کیا، 13 ہزار کا سامان منگوایا، وہ بیچا پھر 30 ہزار کا منگوایا، وہ بیچ کر 50 ہزار کا منگوایا اور اب اس کے ماہانہ کئی گھرانے مستقل گاہک ہیں، جو واٹس ایپ پر آرڈر بھیجتے ہیں، جن کے لیے مصالحہ جات تیار کرکے فری ڈلیوری کے ساتھ کورئیر کیے جاتے ہیں، اور دوبارہ فیس بک پر تشہیر کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی، آرڈر مل رہے ہیں ہفتہ وار ڈلیوری ہورہی ہے۔ ہر کسٹمر 2 ہزار کے بھی مصالحہ جات لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے ہر ماہ 1 لاکھ کے مصالحہ جات فروخت ہوتے ہیں۔ Walk in کسٹمرز اس کے علاوہ ہیں۔

یہ سب بتانے کا مقصد ہے کہ پہلا قدم تو اٹھائیے۔ خاص طور پر گھر بیٹھی خواتین بہت کچھ کر سکتی ہیں اگر وہ وقت کو مینج کرنا سیکھ جائیں تو لاکھوں کی بھی ضرورت نہیں، صرف چند ہزار سے شروع کریں۔ کسی دوست کے ساتھ مل کر شروع کریں، جوائنٹ وینچر بنائیں۔ اس کے لیے میری ہوم بزنس پر تحریر موجود ہے، اسی موضوع پر میرے یوٹیوب چینل (Asifa Qazi) ویڈیو بھی موجود ہے کسی ایک پر بھی آپ کام کریں تو ماہانہ ایک لاکھ تک کما سکتے ہیں۔

اگر اپنا بتاوں تو میں آٹھ گھنٹے کی جاب بھی کرتی ہوں، دونوں بچوں کو بھی خود پڑھاتی ہوں، ساری کوکنگ بھی، کپڑے بھی خود دھوتی ہوں، دوسرے کاموں کے لیے ہیلپر موجود ہے۔ جاب کے علاوہ دو پراجیکٹس پر ماہانہ تنخواہ پر کام کرتی ہوں، ایک ملٹی نیشنل پراجیکٹ پر دسمبر میں کام شروع ہوگا۔ مختلف موضوعات پر بات کرنے کے لیے یو ٹیوب چینل شروع کیا اور وہ کامیاب چل رہا ہے، اپنے پیج کے علاوہ تین اور مختلف فیس بک پیجز کے لیے لکھتی ہوں اور اس کا ماہانہ معاوضہ لیتی ہوں۔ کچھ وقت سے لگتا تھا کہ میں زیادہ وقت فیس بک کو دینے لگی ہوں لیکن اب سوشل میڈیا کم کم استعمال کرتی ہوں، کبھی کبھار ہی لکھتی ہوں، کیونکہ مجھے لگتا ہے یہ وقت بچا کر بھی کسی عملی کام کو دیا جاسکتا ہے۔

آپ میں بھی تو کوئی صلاحیت ہوگی نا؟ اسے کام میں کیوں نہیں لاتے۔ میرے پاس اور تو کوئی ہنر نہیں لیکن اچھا لکھنے اور اچھا بولنے پر کچھ حد تک دسترس حاصل ہے، اور پھر میں نے اس صلاحیت سے کام لیا اور اب تک لے رہی ہوں۔ میں صرف اپنے اس فیس بک پیج کے لیے مفت لکھتی ہوں اور اس کے علاوہ جو کچھ لکھتی ہوں اس کا معاوضہ لیتی ہوں۔

اگلے دس سالوں میں میرا ایک پلان ہے اور میں 2035 میں اسے اپنے شہر میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ وہ ہے، Ladies Cafe، اگر کوئی اور بھی اس پر کام کرنا چاہے تو ضرور کرے۔

اس کیفے پر ویٹر، مینجر، کُک، سویپر سب فی میل ہوں گی اور یہاں پر tables بھی صرف خواتین کے لیے لگائے جائیں گے۔ یہ شہر میں وہ واحد کیفے ہوگا جس میں خواتین اچھے ماحول میں، بیٹھ کر گپ شپ اور دعوتیں کرسکیں گی اور دس سالہ منصوبے کے لیے میں نے آج سے ہی پیسے اکٹھا کرنا شروع کردیے ہیں اور پیسے اکٹھے کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے اور کام کرنے کے لیے آرام قربان کرنا پڑتا ہے۔

اس لیے آپ آئندہ دس برس بعد خود کو ایک بہتر مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں تو فضول گوئی سے نکل کر اپنا آرام قربان کرنا سیکھیں۔ یقین کریں آپ نے دس سال بھی کسی ایک شعبے میں اپنی پوری جان لگا دی، تو دس سال بعد حالات بہت بدل جائیں گے۔ مستقل مزاج بن جائیں، ملٹی ٹاسکنگ، ڈٹ جانے والے، کچھ کرکے دکھانے والے۔۔ کسی بھی شعبے کو چن لیں اور آج سے کام شروع کردیں۔

صبح جاگنا، روٹین کے کام کرنا، فون پر گپیں لگانا، ٹوہ رکھنا، کھا پی کے پھر سوجانا، دوسرے دن پھر یہی روٹین۔۔ یہ زندگی نہیں۔۔ وقت کا ضیاع ہے۔ کچھ Productive کریں۔۔ روٹین بدلیں۔۔ زندگی بدل جائے گی۔ ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔۔ روزانہ صرف آٹھ گھنٹوں کو اپنی زندگی بدلنے کے لیے لگا دیجیے۔

Check Also

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai (2)

By Prof. Riffat Mazhar