Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Makafat e Amal

Makafat e Amal

مکافات عمل

مکافاتِ عمل پر کچھ لوگوں کو یقین نہیں یا خوف نہیں۔۔ کہہ دیتے ہیں اگلے جہاں میں دیکھا جائے گا۔ لیکن پھر پالا اسی جہان میں پڑجاتا ہے۔ آپ یقیں نہ بھی کریں۔۔ لیکن مکافات عمل بہت ظالم شے ہے۔ وقت لوٹ کر آتا ہے، اسی رنگ کے ساتھ اسی ڈھنگ کے ساتھ اور اسی ردعمل کے ساتھ جو آپ ماضی میں چھوڑ آئے تھے۔

وہ آج پھر سفید مگر میلی چادر میں آئی تھیں۔ ہر مہینے دو تین گھروں سے صدقات کی مد میں کچھ لینے آتی ہیں۔ تھیلے میں آٹا بھی تھا جو وہ گود میں رکھ کر ایسے بیٹھی تھیں کہ کوئی چھین کے بھاگ نہ جائے۔

ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، دونوں بھائی ایک ہی گھر میں تھے، چند سالوں بعد بٹوارے کا چکر شروع ہوا۔ انہوں نے میاں کو کہا کب تک جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہیں گے، الگ ہوجاتے ہیں، سسر پر آئے دن دباو ڈالنے لگے کہ جائیداد کے شرعی حصے کرکے بانٹ دیں، وہ اولاد کی باتوں میں آ گئے۔ گھر، دکان اور پلاٹ کے بچوں میں تقسیم کردیا۔ اب ابا جی اور اماں دونوں بوجھ لگنے لگے تھے چونکہ لالچ ختم ہوگیا۔ آبائی گھر بڑے بھائی کے نام ہوچکا۔ چھوٹے بھائی نے الگ گھر لے لیا۔ کچھ دن بعد بزرگوں سے کہا آپ رہنے کے لیے چھوٹے کے گھر چلیں جائیں، وہاں گئے تو مہینے بعد وہ بھی تنگ آ گئے۔ کہا پرائیویسی ڈسٹرب ہوتی ہے، آپ اب بڑے کے ہاں چلے جائیں۔ وہ دونوں بڑھاپے میں فٹ بال بن کر رہ گئے۔

ایک وقت آیا بہووں نے کھانا پوچھنا بھی چھوڑ دیا۔ کچھ دے دیتے تو دونوں کونے میں پڑے چپ چاپ کھا لیتے نہیں تو آٹھ پہر کا روزہ۔۔ ماں جی چند دن بیمار رہ کر چل بسیں، اب والد اکیلے ہوگئے۔ سارا دن چارپائی پہ چپ چاپ پڑے رہتے یا پھر گلی کے نکڑ پہ چھڑی پکڑے شامیں گزار دیتے۔ ان کے گردے خراب ہوئے تو اولاد علاج کے لیے خرچہ کرنے پر تیار نہ تھی۔ والد سب جمع پونجی تو بانٹ چکے تھے ہاتھ میں سوائے بے بسی کے کچھ نہ تھا۔ اسی بیماری میں چل بسے۔۔

وقت گزرنے لگا۔ اولاد کی اولاد بھی بڑی ہوگئی۔ جوان ہوئی، چھوٹا بیٹا دبئی چلا گیا، بڑے بیٹے کا گھر بسا اور بچے ہوگئے۔ اسے کاروبار میں نقصان ہوا تو باپ سے کہا آپ وراثت تقسیم کرکے دے کیوں نہیں دے دیتے۔ باپ نے شفقت پدری دکھائی، دونوں دکانیں بیچ کر حصے کر ڈالے۔ ذاتی مکان بھی بچوں کے نام کردیا، بڑے بیٹے نے دوسرے بھائی کو حصہ دے کر مکان خود لے لیا۔

اب مکافات عمل کا سلسلہ شروع ہوا۔۔ وہ ہوا جو وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ گھر میں خوامخواہ جھگڑے شروع ہونے لگے۔ بہو بیٹے نےپہلے تو سرد مہری دکھائی پھر صاف کہا، اپنا کچھ انتظام کر لیجیے، ہم دوسرے شہر شفٹ ہورہے ہیں، انہوں نے بس اتنا احسان کیا کہ مکان خالی نہیں کروایا جو اب بیٹے کے ہی نام تھا۔

دونوں اب اکیلے رہتے ہیں، بزرگ خاتون ہر مہینے زکوٰۃ یا صدقات کے پیسے اکٹھے کرتی ہیں اور گزر بسر ہوتی ہے۔ کہہ رہی تھیں۔۔ اولاد پاوں بھی پڑجائے، فاقوں مرجائے کبھی اپنی زندگی میں کچھ بھی ان کے نام نہ کرنا۔۔ بس تحفتاً کچھ دے دینا، جس دن رجسٹری دے دی، بادشاہ سے گدا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

وہ ہر بار یہ کہانی سناتی ہیں۔۔ پھر پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے ہر بار ہی کہتی ہیں، تربیت میں تو کسر نہ تھی پتا نہیں کیوں اولاد اتنی ظالم نکلی۔

اور مجھے لگتا ہے، جو بویا تھا۔۔ اس کی فصل دنیا میں ہی پک کر تیار ہوگئ۔۔ اور اب سوائے کاٹنے کے اور چارہ کیا تھا۔

اور بیٹے نے ابھی تازہ تازہ بوئی ہے۔۔ دیکھیے کب کاٹے۔۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza