Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Hunar Dena Mana Hai

Hunar Dena Mana Hai

ہُنر دینا منع ہے

میرے دو سٹوڈنٹس کا فون آیا کہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ دو بچے تھے جنہوں نے 2015 میں میٹرک میں ٹاپ کیا تھا اور پورے شہر اور مضافات میں ان ہونہار طلبا کا چرچا تھا بڑے بڑے پینا فلیکس پر ان کی ادارے کے نام کے ساتھ تصاویر لگی تھیں، بڑے کالجز کی طرف سے فری ایجوکیشن کی پیش کش ہوئی اور انہوں نے من پسند کالجز کا انتخاب کرکے اس میں داخلہ بھی لیا، اگلے چار سالوں میں کامیابی کا تناسب بھی قدرے بہتر رہا۔ گریڈ میں استحکام رہا۔ تب ان کو یوں لگا جیسے دنیا فتح کر لیں گے، ان کے گریڈ ان کی کامیابی کی دلیل اور گارنٹی ہیں۔ ان کی میڑک کی سند ان کی اعلی ملازمت پر قبولیت کی سند ہے۔۔ لیکن نتائج اس کے برعکس رہے۔

وہ جس بڑے ادارے میں انٹرویو دینے گئے بہت کم نمبروں سے ٹیسٹ پاس ہوسکے، تحریری ٹیسٹ پاس کر بھی لیے تو انٹرویو میں رہ گئے، پینل کے سوالات ان کے سر سے گزر گئے، اسناد میں اے پلس گریڈ دھرے کے دھرے رہ گئے، ریک میں رکھی ٹرافی ان کے کسی کام نہ آئی۔

آج وہ کچھ سنانے آئے تھے اور میں خاموشی سے دونوں کو سن رہی تھی۔ دونوں کے چہروں پر مایوسی اور انجانا سا عدم تحفظ تھا، چائے کا کپ رکھ کر ایک نے فرش کو دیکھتے ہوئے آخری جملہ بولا "میڈم تعلیی نظام نے بہت ظلم کیا ہے ہم پر۔۔ "

میں نے مسکرا کر کہا "بیروزگاری تو ہمارا بہت پرانا مسئلہ ہے شہزادے، میرٹ نہیں دیکھا جاتا"

"نہیں میڈم!" دوسرا تڑپ کر بولا "ہمیں بیروزگاری نے نہیں، ہماری ڈگریوں نے مارا ہے، ہمیں وہ کچھ سکھایا ہی نہیں گیا جو اگلے دس سال ہمارے کام آتا، میں ایک بار پھر غور سے سننے لگی۔ آج ان کے بولنے کی باری تھی۔

"ہمیں اعتماد نہیں سکھایا گیا، انگریزی میں پورے نمبر دے کر انگریزی بولنا نہیں سکھایا گیا، میتھ میں سو بٹہ سو لینے والے اپنی ہی زمین کا رقبہ نہیں نکال سکتے، اردو میں پورے نمبر لے کر بھی ہم وزیر اعلی کو عرضی نہیں لکھ سکتے، میرٹ ہمارے قدموں کی دھول ہے لیکن نالج ہمارے پاس صفر ہے، آپ نے نمبروں کی مشینیں بنائی ہیں، جینیس نہیں"۔ آواز اس کے گلے میں رندھ گئی۔

میرے پاس کوئی جواب نہ تھا "میرے ابو کے زمانے میں ڈاکٹری کا میرٹ %78 فیصد تھا، اب % 91 پر بھی پاکستان کے سب سے تھکے ہوئے کالج میں بھی داخلہ نہیں ملتا"۔ اس کے چہرے پر تھکن ہی تھکن تھی۔

لگتا تھا نوکریاں ہمارے قدموں میں گریں گی، آج جس کمپنی میں جاتے ہیں وہاں پورے نمبر لینے والے سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن ٹیسٹ اور انٹرویو میں سب رہ جاتے ہیں، کہاں گئے وہ نمبر؟"

وہ اپنا کتھارسس کر رہے تھے یا سوال۔۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ہم نمبروں کی مشینیں ہی تو بنا رہے ہیں، میرے نظروں میں کوویڈ میں میٹرک اور ایف ایس سی میں پورے نمبر لینے والے گیارہ سو ستانوے طلبا گھوم گئے۔۔ کچھ سالوں بعد اُن کے سوالات اِن سے بھی تلخ ہوں گے۔ گیارہ سو طلبا اپنے ٹیچر کو فون کرکے کہیں گے "آپ سے بات کرنی ہے"۔۔

اور جواب میں وہی خاموشی۔۔ طویل خاموشی ملے گی۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza