1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asifa Ambreen Qazi/
  4. Bachon Ka Kya Qasoor Hai?

Bachon Ka Kya Qasoor Hai?

بچوں کا کیا قصور ہے؟

صبح شبو آئی تو پریشان سی تھی، خلافِ معمول نہ کوئی خود کلامی کی نہ بلاوجہ بڑبڑائی، نہ ہنسی مذاق نہ کوئی اعتراض اور کام بھی نمٹا رہی تھی۔ میں نے ناشتہ بناتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ نصیبِ دشمناں کوئی برا ہوگیا کیا؟

برتن دھوتے ہوئے بولی: باجی کل سے میرے بھائی کے تین بچے گھر آئے ہوئے ہیں، بس وہ کچھ پریشانی سی ہے، ان کو اکیلا چھوڑ کے آئی ہوں، مجھے دو دن کی چھٹی بھی دے دیں۔

پوچھا خیریت ہے سب؟ بچوں کے آنے پہ اتنی پریشانی۔

کہنے لگی بھائی اور بھابی کی آپس میں کسی بات پہ لڑائی ہوئی، بات کچھ زیادہ بڑھ گئی تو بھابی کے والدین نے کہا اپنے بچے چھوڑ کر میکے آ جاو، وہ تینوں چھوٹے بچے چھوڑ کر پرسوں میکے چلی گئی۔ میری والدہ بوڑھی ہیں، گھر میں ایک دن تو بچے رکھے لیکن ان سے سنبھالے نہیں گئے، مجبوراً بھائی یہاں میرے پاس لے کے آیا کہ جب تک بیوی راضی نہیں ہوتی ان کو رکھ لو۔

شبانہ کی بات سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی، اس نے بتایا کہ چھوٹا بچہ محض سات ماہ کا ہے اور ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ کھاتا پیتا نہیں، رات پہلی بار بوتل کا دودھ دیا، مگر ساری رات وہ روتا رہا ہے۔ بڑے دونوں بہن بھائی بالترتیب پانچ اور تین سال کے ہیں۔

میں نے پوچھا تو کیا منانے نہیں گئے؟

بولی اسی شام گئے تھے منانے، بلکہ چھوٹا بچہ بھی ساتھ لے گئے، لیکن بھابی کی ماں نہیں مانی اور کہا ہم اپنی اولاد کو رکھ سکتے ہیں تو آپ بھی اپنی اولاد کو سنبھالیں میری بیٹی گھر سے یہ بچے لے کے نہیں گئی تھی۔

بھائی نے کہا چھوٹا تو رکھ لیں۔۔ جواب آیا یہی بچہ تو آپ کو دن میں تارے دکھائے گا، باقی دونوں تو بڑے ہیں۔ پھر بھائی روتے بچے کو واپس گجرات لے کر آ گیا۔

میں نے اسی وقت شبو کو کہا تم کام چھوڑ دو، گھر جاو، اور ان بچوں کا خیال رکھو، اس وقت کام پہ آنا جب معاملات حل ہوجائیں اور بچے اپنے گھر چلے جائیں۔

اسی طرح کا ایک واقعہ میں نے پہلے بھی دیکھا کہ گھریلو چپقلش پر بیوی نے چھوٹے چھوٹے بچے سسرال والوں کے، منہ پہ مارے، اور میکے چلی گئی اور یہ سسرال والوں کو سبق سکھانے کا سب سے بہترین حربہ تھا۔

چلیے گھر کے معاملات جو بھی ہوں، ہو سکتا ہے عورت مظلوم ہو۔۔ لیکن اس سب قضیے میں معصوم بچوں کا کیا قصور؟ کیا ایک ماں اس قدر سخت دل ہوسکتی ہے کہ اپنے جگر پاروں کو یوں پھینک کے چل پڑے۔ کچھ دنوں یا ہفتوں بعد راضی نامے ہوہی جاتے ہیں لیکن ان بچوں کے دلوں اور ذہنوں پر کیا گزرتی ہوگی جو ماں کے بغیر یوں دادیوں، پھپھیوں اور چاچیوں کے پاس چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

کیا واقعی ماں کا دل اتنا پتھر ہوسکتا ہے؟ میرا دل نہیں مانتا۔ ایک واقعہ جس کی میں چشم دید گواہ ہوں، بیوی صرف اس وجہ سے دونوں بچے میاں کے پاس پھینک کے چلی گئی کہ یہ الگ گھر نہیں بنا رہا اور بھائی کے ساتھ رہتا ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ ڈیڑھ سالہ بچہ ماں کی جدائی میں شدید بیمار ہو کر اسپتال داخل ہوگیا، جب حالت زیادہ بگڑی تو ماں بھاگی بھاگی آ گئی، تب بھی الزام ہی لگایا کہ سسرال والوں نے کچھ کیا ہے۔

آپ پڑھی لکھی خاتون ہیں یا ان پڑھ ہیں، ہاوس وائف ہیں یا ورکنگ ویمن گھریلو جھگڑوں کی بھینٹ کبھی بھی بچوں کو نہ چڑھایا کریں۔ کئی شوہر بھی ایسے ظالم ہوتے ہیں کہ بچوں کو چھین کر بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نقصان صرف بچوں کا ہوتا ہے۔ ان کے ذہن پہ ثبت ہونے والے یہ بھیانک نقش کبھی مٹ نہیں پاتے۔ وہ بڑے ہوبھی جائیں تو ذہنی مریض رہتے ہیں، اپنی محرومیوں کا بدلہ معاشرے سے لیتے ہیں۔ آپ کبھی بڑے بڑے مجرموں اور نشئیوں کا انٹرویو لیں تو وجہ ان کے گھر کے ماضی کے جھگڑے نکلیں گے۔

اب نہیں معلوم ان بچوں کا مسئلہ کب حل ہو۔ اس ننھے شیر خوار کی یہ جاڑے کی راتیں ماں کی گود کے بغیر کیسے گزاریں گی۔ کاش اس کی ماں کو احساس ہو۔ میں نے صبح شبو سے کہا تھا مجھے اپنی بھابی کا فون نمبر بھیجنا، میں بات کرکے دیکھوں گی۔ شاید اس کا دل پسیج جائے۔ بہرحال، میرے ذہن سے بچے محو نہیں ہورہے۔ صبح خیال تک نہ آیا کہ ان کے کھانے کے لیے کچھ بھیج دوں۔ اب رہ رہ کے آ رہا ہے۔

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo