Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Sipra
  4. Islam Aur Law Of Attraction

Islam Aur Law Of Attraction

اسلام اور لاء آف آٹریکشن

قانون کشش اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ قانون کشش کے مطابق ہماری زندگی میں جو ہمیں مل رہا ہے جو واقعات و حالات ہمیں پیش آ رہے ہیں جو افراد ہماری زندگی میں داخل ہو رہے ہیں وہ ہماری سوچ ہمارے احساسات اور ہمارے یقین کا حصہ ہیں۔ اگر ہم باقاعدہ مشق کرکے ہماری سوچ اور ہمارے احساسات کو تبدیل کر دیں تو یہ ہماری زندگے میں آنے والے حالات بھی تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

اگر مومن اور کافر دریا میں اتر جائیں تو صرف وہی زندہ باہر آئے گا جسے تیرنا آتا ہو اگر مومن کو تیرنا نہیں آتا تو خدا کافر کو بچا لے گا کیوں کہ کافر نے خدا کی دی ہوئی صلاحیت کو سیکھا اس نے علم حاصل کیا اور مومن نے نہیں سیکھا۔ اس لیے خدا مومن کی بجائے کافر کی ہی مدد کرے گا۔ خدا کے بنائے ہوئے اصول اور قانون کو سمجھ کر جو بھی فائدہ اٹھائیں گے تو اللہ تعالی انہیں ہی ترقی دے گا۔

اگر دو مزدوروں میں سے ایک مزدور یہ کہے کہ آج کے دن میں ہاتھ پیر نہیں چلاوں گا خدا روزی دینے والا ہے مجھے ضرور دے گا اور دوسرا مزدور اپنی جسمانی صلاحیتوں کو استعمال کرکے مزدوری کرکے اپنی روزی کمائے تو اللہ کی دی ہوئی جسمانی طاقت کو استعمال کرکے روزی کمانے والا مزدور بھوکا نہیں رہے گا۔ بات ذہین نشین کریں کہ دماغ اور جسم اللہ کی دی ہوئی بڑی نعمتیں ہیں جو لوگ جسمانی طاقت ہاتھ اور پاؤں استعمال کرنا جانتے ہیں اور انہیں مختلف کاموں میں بروئے کار لاتے ہیں وہ ہاتھ اور پاؤں استعمال نہ کرنے والوں سے بہت آگے چلے جاتے ہیں اور مزید ترقی کرتے ہیں۔

ایسے ہی دماغ کی بھی طاقت ہے احساسات، سوچ اور غوروفکر جو لوگ اللہ کی دی طاقت کو جان لیتے ہیں اور اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو وہ دماغ کی اس طاقت کو استعمال نہ کرنے والوں سے ہزار گنا بہتر ہوتے ہیں۔ قانون کشش ہمیں دماغی صلاحیت کو استعمال کرکے زندگی کو بدلنے اور بہتر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہم جسم کی صلاحیت کو استعمال کرکے زندگی کو بہتر کریں یا دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرکے زندگی کو آسان بنائیں۔ بہتر کامیابی دینے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔ اب آپ کی مرضی کہ آپ جسم اور دماغ دونوں کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہیں یا ایک کی صلاحیت استعمال کرتے ہیں۔ دماغ کی اس پر کشش صلاحیت کو استعمال نہ کرنے والے کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔

اللہ نے اپنے فضل سے دو آدمیوں کو زمین کا ایک ٹکڑا عطا کیا۔ ایک آدمی نے اللہ کے اس دیے ہوے زمین کے اس ٹکڑے میں ہل چلایا بیج بویا اور اسے سیراب کر دیا اور اپنی ساری کوشش اور محنت کی اور دوسرے انسان نے کچھ نہیں کیا اور کہا کہ جس طرح اللہ نے مجھے زمین دی ہے اسی طرح ہی رہنے دوں گا اس پر جو کچھ بھی کرے گا اللہ ہی کرے گا۔ اگرچہ بارشیں بھی ہوئیں تو اس زمین میں گھاس اور جڑی بوٹیاں ہی اگیں گیں۔

اللہ نے آپ کو سوچنے کی، محسوس کرنے کی اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت دی ہوئی ہے۔ اگر آپ اپنی ان صلاحیتوں کو بروے کار لا کر اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرتے ہیں تو آپ اس کسان کی طرح ہیں جس کو اللہ تعالی نے زمین کا ٹکرا دیا تو اس نے محنت کرکے فصل کے پھل کی شکل میں نتیجہ حاصل کیا اور فاقہ سے بچا رہا اور وہ شخص جس نے اپنی اس صلاحیت کو احساسات اور یقین کی طاقت کو استعمال ہی نہیں کیاتو آپ پر اس کسان کی مثال لاگو ہوتی ہے۔ جس کے مقدر میں صرف گھاس اور جڑی بوٹیاں ہی آئیں۔

اللہ نے آپ کو دماغ جیسی طاقتور چیز دی ہے اگر آپ اسے استعمال نہیں کرتے تو آپ اس کے بے انتہا فائدوں سے محروم ہیں گے۔ آپ قانون کشش کے اس قانون کو سمجھیں اور اپنی زندگی میں اس کا استعمال کرکے اپنی زندگی کو بہترین راہوں پر گامزن کریں۔ اگر آپ شدید بیمار بھی ہو جائیں تو بھی کبھی اپنے آپ کو تقدیر کے بھروسہ نہ رکھیں کہ جو ہماری قسمت میں لکھا ہے وہی ہمارے ساتھ ہوگا۔ ہم اپنے ذہین اور جسم کی صلاحیتوں کو استعمال کر تے ہوے جو کچھ کر سکتے ہیں ضرور کریں گے اپنے نصیب اور تقدیر کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔

اللہ تعالی نے دنیا کا نظام چلانے کے لیے مختلف قانون بنائے ہوے ہیں اور یہ نظام ان مختلف قسم کے قانون کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنے کھیت میں گاجر کے بیج بوئیں گے تو ظاہر سی بات ہے آپ گاجر کی فصل ہی لیں گے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ اس کھیت سے جس میں گاجر کا بیج بویا ہے وہاں سے گنے کی فصل حاصل کریں۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ اگر ہم بیٹھ جائیں اللہ کے سامنے اور دعائیں کریں کہ یا اللہ گاجر کا بیج بویا ہے تو اس میں گنا ہی اگا تو کیا ہماری توقعات پوری ہوں گی۔ کیا جو ہم مانگ رہے ہیں وہ ہوگا نہیں بالکل ایسا نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم مانگ رہے ہیں کہ گاجرکی بجاے گنا ہی اگے۔

ایک جائزہ لیں جو لوگ کامیاب ہیں، خوشحال ہیں اور امیر ہیں ان کی سوچ ان کے احساسات اور غوروفکر جس طریقے سے کام کر رہی ہوتی ہیں جس طریقے سے ان کا یقین کام کر رہا ہوتا ہے اس طریقے کے مطابق جب تک ایک عام آدمی اپنی سوچ، اپنے احساسات اور یقین کی طاقت کو اور اپنے توقعات کو ویسا نہیں بناے گاتو بہت مشکل ہے کہ اس کی زندگی سے امیری تک پہنچ جائے کیوں کہ جب تک ہم ان قوانین پر عمل نہیں کریں گے ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

دماغ کی سوچ بتاتی ہے جس طرح کا آپ بننا چاہتے ہیں جس طرح کے حالات آپ چاہتے ہیں جس طرح کے خواب آپ نے سجاے ہوے ہیں جن لوگوں نے سب کچھ حاصل کہا ہوا ہے ان کی سوچ کے طریقہ کو نقل کرنا ہوگاان جیسی سوچ بنانی ہوگی ان جیسی عادات اپنانی ہوں گیاان جیسے احساسات بنانے پڑیں گے ان کی عادات کی نقل کرنی ہوگی سادہ الفاظ میں قانون کشش میں ہم اگر سوچ۔

احساسات اور یقین جو غریبوں والی ہیں اور دعائیں جو کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دولت آ جائے، کامیابی آ جائے، ہمیں سب کچھ مل جاے تو ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ جس طرح ہماری دعاوں کے باوجود گاجر کے کھیت سے گنا نہیں اگنے والا اسے طرح ہم بھی کامیاب نہیں ہونے والے کیوں کہ یہ قانون ہے اصول ہے۔

باہر کی دنیا میں جو کچھ ہمارے بارے میں نظر آ رہا ہوتا ہے (جو کچھ ہمارے پاس ہے، جو کچھ ہم ہیں یا جس طرح کا سلوک لوگ ہمارے ساتھ کرتے ہیں) وہ اندر کی دنیا (جو کچھ ہمارے اندر یاذہین میں چل رہا ہوتا ہے) اسی کا عکس ہوتا ہے۔

ایک آدمی جس کے پاس دو وقت کا کھانا نہیں اور وہ غربت میں ہے وہ اپنے تجربات کی بنیاد پر اسے روزمرہ سے جو کچھ اس کو ملتا اس کی بنیا پر اسے اپنا یقین بناتا ہے۔ اسے بنیاد پر اسکی سوچ اور احساسات بنتے ہیں۔ اگر وہ اپنی سوچ اس طرح رکھے گا تو اس نے اسی طرح ہی رہنا ہے۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم ان بنیادی باتون کو ان سوچوں کو ان احساسات کو اپنی مرضی سے استعمال کریں۔

فرض کریں جو کچھ آپ چاہتے ہیں آپ کے پاس آ جائے اب ان چیزوں کو استعمال کرکے ایک مقصد تخلیق دیں اپنی سوچ میں کہ آپ جو کچھ چاہتے ہیں جو مل چکا ہو تو آپ کیسا محسوس کریں گے آ پ کے دماغ میں کیا کچھ چل رہا ہوگا اس مقصد کو آپ جتنا صاف نظری سے پکڑیں گے واضح طور پر آپ جو جو چیزیں حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنے پاس حاصل کیا ہوا دیکھیں گے جتنا زیادہ صاف اور یقین کے ساتھ دیکھیں گے اتنے زیادہ احساسات آئیں گے اتنی زیادہ ویووز ان حالات سے ملیں گی اور کشش کا قانون، خدا کے قانون کے مطابق وہ چیزیں اکٹھی ہو کے آپ کی طرف آنا شروع ہو جائیں گی۔

ہمارے دماغ میں چلنے والی چیزیں اس میں تصویریں ہیں سوچ ہے اور احساسات ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ ان کو جس شخص نے کنٹرول کر لیا اس نے اپنی زندگے کو کنٹرول کر لیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دو منٹ میں کہیں کہ تصور کی طاقت میرے کنٹرول میں ہے، ذہین میں چلنے والی سوچیں میرے کنٹرول میں ہیں لیکن میری زندگی کیوں کنٹرول نہیں ہو رہی۔ اگر آپ دن میں زیادہ سے زیادہ پچاس فیصد اپنے دماغ میں چلنے والی سوچوں کو کنٹرول کر لیں تو زندگی میں چلنے والے واقعات پر بھی آپ کا کنٹرول بڑھ جائے گا۔

ایک انسان چلتے چلتے ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں زہین میں آنے والی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ تھک گیا تو اس کے دماغ میں آیا کہ سایہ دار جگہ مل جائے تو فورا سایہ دار ماحول پیدا ہوگیا اور وہ سایہ میں بیٹھ گیا۔ اس کے زہین میں آیا کہ اسے شدید بھوک لگی ہوئی ہے اس نے ذہن میں سوچا کہ مجھے یہاں میری پسندیدہ خوراک مل جائے تو اگلے ہی پل اس کے سامنے اس کی من پسند چیزوں کا دسترخوان سج گیا۔ (اس کے ذہن میں اچھی چیزیں چل رہی تھی توسب کچھ اچھا ملنے لگا) اس نے کھانا کھایا اس کے بعد اس کے دماغ میں آیا کہ کوئی اچھا سا مشروب ہو جاے تو کیا بات ہے۔ جیسے ہی دماغ میں یہ بات آئی تو دیکھا کہ پینے کے مشروبات بھی وہاں پڑے ہوے ہیں۔ اس نے کھانا بھی کھا لیا اور مشروبات بھی پی لیے۔ تھوڑی دیر میں اس کے دماغ میں آیا کہ اگر سونے کا انتظام ہو جائے تو کیا ہی بات ہوگی۔ یہ سوچنے کی دیر تھی تو اس کے سامنے ایک خوبصورت پلنگ موجود تھا اب وہ آرام دہ بستر پر سکون کرنے کے لیے سو گیا۔

سونے کے بعد جب وہ اٹھا تو اس کے دماغ میں چلنے لگ گیا کہ یہاں کوئی بھوت نہ ہو تو وہاں ایک بھوت نمودار ہوگیا۔ ذہن میں نا پسندیدہ چیزیں چلنے سے اس کے ساتھ برا ہونے لگا۔ اب اس نے سوچا کی یہ بھوت بہت خطرناک ہے یہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچا دے مجھے خوفزدہ نہ کردے جیسے ہی اس نے سوچا تو بھوت نے اسے خوفزدہ کرنا شروع کر دیا۔ اب اس نے سوچا کہ مجھے یہ ضرور مار ڈالے گا جیسے ہی اس نے یہ سوچا تو بھوت نے اس پر حملہ شروع کر دیا اور اسے جان سے مار ڈالا۔ یہ ایک مثال تھی کہ کیسے ہمارے زہین میں چلنے والی سوچیں ہم پہ کیا اثرانداز ہوتی ہیں۔

اگرچہ ایک غریب آدمی ہے تو اس کی سوچ کی تحقیق کریں کہ اس کے دماغ میں کیا ہے یہی چیزیں کہ میرے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا یہ کیوں ہو رہا ہے اس کا غور صرف اس بات پر ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جو وہ نہیں چاہتا اور کسی بھی امیر آدمی کو جو خوشحال ہو اور پر جوش ہو تو اس کی سوچ کا موازنہ کریں تو آپ کو فرق واضح نظر آجاے گا۔ اگر ہم آ دھے سے زیادہ اپنے زہین میں چلنے والی سوچیں (ایک تحقیق کے مطابق روزانہ ہمارے دماغ میں 12,000 سے 60,000 خیالات آتے ہیں اور ان سوچوں پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ جو ہم ٹی وی پر منفی چیزیں دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ہماری لاشعوری دماغ میں بھر جاتی ہیں جس طرح ٹی وی پر منفی چیزیں آ رہی ہوتی ہیں وہ غربت کے متعلق ہوتی ہیں، ایکسیڈنٹ یا زلزے کے متعلق یا کوئی بھی بات جو منفی ہو ہمارے دماغ میں محفوظ ہو رہی ہوتی ہے اور یہ چیزیں ہمارے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں اور دماغ ہمیں ان سوچوں کے مطابق ہی چلا رہا ہوتا ہے ان کے مطابق ہی ہمارا یقین بن رہا ہوتا ہے اور یہ یقین حقیقت بن جاتا ہے۔

اگر آپ خود سے وعدہ کر لیں کہ دماغ میں چلنے والی سوچ کا پہرہ دے دیں اور سوچ وہ ہے جس کے ساتھ احساسات بھی ہوں۔ منفی سوچوں پہ ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اگر ہم نے مثبت سوچیں لینی ہیں تو ہمیں یقین ہو کہ ہمیں یہ چیزیں ملیں گی۔ انہیں پر توجہ رکھیں جو چیزیں آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثبت سوچ ایک طاقتور انرجی ہے جب آپ شدت سے اسے اپنی طرف مائل کریں گے تو وہ پوری طاقت سے آپ کی طرف آ ئیں گی۔ آپ کے دماغ سے یہ بات ہی نکل جائے گے کہ یہ بات میرے دماغ میں آئے ہی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جب آپ اس قدر مثبت سوچیں جذب کریں گے تو سادہ سا دھیان اس بات پہ رکھیں گے کہ یہ چیز میرے پاس آئے گے ہی آئے گے تو سادہ اگر بیا ن کیا جائے تو یہی قانون کشش ہے۔

Check Also

Islamia University Bahawalpur Ko Bachayen

By Muhammad Irfan Nadeem