Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Zindagi Beniaz Chalti Hai

Zindagi Beniaz Chalti Hai

زندگی بے نیاز چلتی ہے

وہ کمال کی حسین و دلفریب یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ لیکن وہ محبت کی دنیا کا باشندہ تھی۔ اچھے سبھاؤ والی تھی اور اس کے چہرے پر شفق تھی۔ تصورات کے بازوؤں میں بسیرا تھا۔ اس کی عمر محض انیس سال تھی کہ ایک دن اس کی پلکوں سے ایک نگاہ چھن کر اپنے سے کئی سال بڑے ایک جہاندیدہ شخص پر جا پڑی اور وہ اس کے سحر میں مبتلا ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور مستقبل کے سہانے خوابوں میں گم ہو گئی۔ شاید اسے بھی وہم تھا کہ محبت زندگی کو سیراب کرتی ہے۔

وہ ایک نکھرا ہوا دن تھا، زمین کا چہرا آسمان کی طرح روشن تھا، صبح کا وقت آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا، سرد ہوائیں درختوں سے چھن کر آرہی تھیں۔ پہاڑوں سے درخت، بیلیں اور پھول جھک کر جھیل میں اپنا عکس تلاش کر رہے تھے۔ پرندے جھیل کو صبح کا سلام کر رہے تھے۔ کوے باغ پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ سڑک پانی کے رخساروں کو چھو کر گزر رہی تھی۔ چہرے خوشی سے گلنار ہو رہے تھے۔ دل پسلیوں سے سر پٹخ رہا تھا۔ جب اس نے پڑھائی ترک کرنے اور یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس شخص سے شادی کی اور باغ محبت کے پھول چننےاس کے ساتھ فرانس کے شہر سٹراسبرگ آ گئی۔ جہاں سے اس کے خاوند کو پی۔ ایچ۔ ڈی کرنا تھی۔

پھول کھلا تو خوشبو کو رہائی ملی۔ یہاں اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور ساتھ ہی پھر ایک اور امکان نے سر اٹھایا۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ زچگی کے کچھ ہی عرصے بعد اسے طلاق ہو گئی اور وہ اپنی شیر خوار بیٹی کو اپنے نازک بازوں میں تھامے واپس انقرہ اپنی ماں کے پاس پہنچ گئی۔ ہم زندگی میں جو بھی فیصلہ ہنستے یا روتے ہوئے کرتے ہیں وہ ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔ باپ پہلے ہی اللہ کو پیارا ہو چکا تھا اور ماں اللہ کے سوا واحد سہارا تھی۔ لیکن کمال ہمت و حوصلےوالی بہادر ماں، جو ان دونوں کا چارج لینے کیلئے بالکل تیار تھی۔

جس رفتار سے انسانی تعلقات آگے بڑھتے ہیں، پھر اتنی ہی تیزی سے غارت ہو جاتے ہیں۔ نہ جانے کیوں؟ کیا محبت صرف پھولوں، خوشبوؤں اور خوشیوں کا نام نہیں ہے؟ شاید ایسا نہیں ہے۔ محبت کے نازک موضوع پر عبور حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہوا کو مٹھی میں پکڑنے کی کوشش کرے۔ اس صورتحال کو الفاظ کا روپ دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی مصور کےلیے درد سمیت تصویر کھینچنا:

اے مصور!

تجھے استاد میں مانوں گا۔

درد بھی کھینچ، میری تصویر کے ساتھ

بہت جلد رشتہ داروں اور آس پاس کے لوگوں نےاس کی ماں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ فوری طور پر بیٹی کی دوسری شادی کر دے تا کہ خاندانی عزت اور معاشرتی اقدار کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ مگر عظیم ماں جانتی تھی اقدار اور اصولوں پر قائم رہنا انتہائی ضروری ہے۔ مگر انھیں دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرنا پرلے درجے کی نالائقی ہے اور اخلاق کے منافی ہے۔

سوچنے اور تفکر کرنے کی مہلت نہ تھی۔ ویسے بھی مشکلات میں گھرا انسان تیز سوچتا اور تیز ترین ڈوڑتا ہے۔ لہذا بہادر ماں نے کسی کا بھی دباؤ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بیٹی کو دوبارہ یونیورسٹی جا کر اپنی تعلیم مکمل کرنے بھیج دیا اور اس کی ننھی پری کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اس نے ہر قسم کی افواہوں کو پھیلنے دیا۔ خام ذہنوں میں لاوا پکتا رہا۔ لوگوں کی زبانوں پر بدتہذیبی کے الفاظ نمودار ہوتے رہے۔ کچے کان والے انہیں سنتے رہے اور افواہوں کو مزید پھیلا کر مزے لوٹتے رہے۔ اسے شکست اور صدمے سے دوچار کرنے کی سعی لا حاصل کرتے رہے۔

ان چغل خور اور غیبت کرنے والوں میں سے کسی نے بےیارومددگار اور عزلت گزیدہ کا دکھ سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ کچھ اچھے اور صاحب سمجھ لوگ بھی اپنے آپ کو اس آگ کی تپش سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ لوگ بے خبر تھے۔ وہ فقیہہ تھی لیکن فقیر بنی رہی۔ جنون اور تنہائی سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ یہ باتیں اگرچہ دل شکن تھیں مگر وہ جانتی تھی یہ امتحان کا حصہ ہیں۔ خدا صبر سے کام لیتا ہے۔ انسان کو صبر ہی کرنا چاہئے۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، بدل جاتا اور بہت جلد بدل جاتا ہے۔ غم و اندوہ کے بعد ایک نیا موسم نمودار ہوتا ہے۔

اور اس کی بیٹی! وہ ایک انمول ہیرا تھی۔ اس نے ماں کی امیدوں اور آرزوؤں کا قلعہ چکنا چور نہ ہونے دیا بلکہ ان کا پاس رکھتے ہوئے گریجوایشن میں شاندار کامیابی حاصل کی اور ترکی کی سفارتی سروس میں شامل ہو گئی۔ یوں اپنے آپ کو زندگی کی دلدل سے نکالا اور اپنی بیٹی کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔ اکثر اوقات بہت سی چیزیں واضح نہیں ہوتیں مگر خدا چاہتا ہے ہم ہر چیز صاف طور پر دیکھ لیں۔

اس کی زندگی میں دنیا بھر کا حسن سمٹ آیا۔ اس نے اب نہایت سنجیدہ رویہ اختیار کر لیا۔ شوخی و شرارت کی جگہ متانت و سنجیدگی نے سنبھال لی۔ اس کے دراز گیسو جو کبھی جھالر کی طرح اس کی سیاہ آنکھوں پر پڑے رہتے تھے۔ اب انہوں نے سنبھل اور سمٹ کر سر کے پیچھے گردن پر ڈیرے جما لیے۔ کہ ان آنکھوں نے بہت جلد زندگی کے بہت سے رخ دیکھ لئے تھے۔ اب وہ بغیر کسی رکاوٹ کے مزید جدوجہد کرنا چاہتی تھیں۔ اب اسے کسی کو کھو دینے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ لطیف و گداز ہوا کی مانند نئے امکانات تلاش کرنا چاہتی تھی۔

تجھ سے گلہ ہے اور نہایت ادب سے ہے۔ دوسروں پر الزام لگانا انسان کی فطرت ثانیہ ہے۔ مگر اس نے کسی کو الزام سے دوچار نہیں کیا۔ اس نے کبھی یہ الفاظ اپنے ہونٹوں کی شاہراہ سے نہ گزرنے دیے، کیا تمہیں وہ عہدوپیماں، وہ قول و قرار یاد ہے۔ نہ ہی اس نے یہ سوال اپنی زبان کی سر زمین پہ اترنے دیا کہ وہ کہاں ہے جس کیلئے اس نے اپنا گھر بار چھوڑا تھا۔ جو ہونا تھا ہو چکا۔ اب آگے چل کر نئے امکانات تلاش کرتے ہیں۔ شاید وہ آگاہ تھی کہ الزام لگانا نالائقی کی علامت ہے۔ انسان سے ناراضی کیسی، جو میری طرح محکوم و مجبور ہے۔ خدا کی مرضی میں کسی کو دخل نہیں۔

اصل کام ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ اس کا دل ٹوٹ جائے اور اس میں سوزوگداز پیدا ہو۔ کہ گداز روح کے بغیر اچھے خدا کا تصور کیا جا سکتا ہے، نہ کائنات کا، نہ آدم کا، نہ اولاد آدم کی ننھی خوشیوں کا۔ یوں اس نے زندگی میں کچھ اور ہی رنگ بھر لئے۔ اس کا نظریہ حیات و محبت بدل گیا۔

اب محبت کا رخ انسان اور خدمت کی طرف مڑ گیا۔ دل ہر قسم کے ڈر اور خوف سے پاک ہو گیا۔ اس نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ اس نے ایک نئی سچائی تلاش کر لی کہ سچ دلوں کو کشادہ کر دیتا ہے۔ وہ ایک نئی راہ پر چل کر دیکھنا چاہتی تھی کہ جہاں اس کمزور اور نازک، بالکل گلاب کی طرح، مگر لازوال ہمت والی کو، ایک بلند پایہ مصنفہ کی پرورش کی ذمہ پورے دل و جان سے نبھانا تھی۔ دنیا جس کی راہ میں آنکھیں بچھانے کو تیار کھڑی تھی۔

یہ بیٹی اور مصنفہ کون تھی یہ آج کل کی ایک عظیم مصنفہ، کالم نگار اور پبلک سپیکر ایلف شفک ہے۔ اس کا تعلق ترکی سے ہے اور یہاں کی سب سے معروف خاتون لکھاری ہے۔ ایک لکھاری کے طور پر بالکل اپنے ملک ترکی کی طرح وہ مغرب اور مشرق کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے، یہ ترکی اور انگریزی زبانوں میں لکھتی ہے۔ لندن اور استنبول میں رہتی ہے۔ ہمارے وقت کے نہایت اہم سیاسی اور ذاتی موضوعات اس کا موضوع سخن ہیں۔ یہ اب تک پندرہ کتابیں لکھ چکی ہے۔ جن میں سے دس ناول ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو سمیت دنیا کی چالیس سے زائد زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ اس کی کتابوں کو انتہائی ذوق و شوق سے پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ اسے دنیا کے بڑے بڑے اداروں اور یونیورسٹیوں میں لیکچرز دینے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت قابل اور انتہائی وسیع المطالعہ خاتون ہے۔ حال ہی میں میں نے اس کی ایک کتاب عشق کے چالیس نرالے اصول پڑھی۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور پروقار تحریر ہے۔ ایک حرف بھی سرنگوں نہیں ہے۔

شفک 1971 میں فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں پیدا ہوئی جہاں اس کےفلاسفر والد نوری بلجن پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے تھے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کی پیدائش کے صرف ایک ہی سال بعد اس کی ماں کو طلاق ہو گئی اور ماں بیٹی کو واپس انقرہ آنا پڑا۔ جہاں اس کی بہادر اور کمال کا حوصلہ رکھنے والی نانی ان دونوں کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار تھی۔ حسب معمول اور ہر بچے کی طرح کچھ عرصہ وہ کھلونوں اور گڑیاؤں سے کھیلتی رہی اور پھر کتابیں بغل میں دبائے، اپنی جہاندیدہ نانی کی انگلی تھامے سکول چلی گئی۔ اور پھر پوری زندگی کتابیں پڑھنے اور لکھنے کیلئے وقف کر دی۔

آج اس کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد پندرہ ہو چکی ہے اور یہ کام ابھی پورے زور و شور اور تندہی سے جاری ہے۔ اگر اس کو اور اسکی کتابوں کو اس کی زندگی میں ہی یہ اعلٰی مقام مل چکا ہے تو تاریخ یقیناً اس کو وہ مقام عظیم عطا کر ے گی جو یہ آج تک ایسے عظیم لوگوں کو دیتی آئی ہے۔ کیونکہ قدرت اور تاریخ کے اصول اٹل ہیں یہ کسی ایک آدمی کی خاطر اپنے اصول اور فیصلے بدلا نہیں کرتیں۔

شیکسپئر نے اپنی شاعری کے بارے کہا تھا۔۔

"نہ کوئی سنگ مر مر، نہ ہی شہزادوں کی سنہری یادگاریں، ان شعروں سے زیادہ دیرپا ہوگا"۔

Check Also

Power Of Tongue

By Javed Chaudhry