Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Yadon Ke Timtimate Diye (1)

Yadon Ke Timtimate Diye (1)

یادوں کے ٹمٹماتے دیئے (1)

وقت وہ مسافر ہے جو جاتے ہوئے سب کچھ سمیٹ کر ساتھ لے جاتا ہے اور یادوں کے ٹمٹماتے ہوئے دیئے چھوڑ جاتا ہے۔ بوڑھا آدمی جدھر بھی چل نکلے، وسوسے اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ خوف اس کا ایک مستقل ساتھی ہوتا ہے۔ شاید اسی خوف کی وجہ سے یہ مضبوط فیصلوں کے سہارے نہیں جیتے بلکہ شگونوں کی انگلی پکڑ کر فیصلے کرتے ہیں۔ ہمیشہ حزن و ملال اور پچھتاوے کا شکار رہتے ہیں اور خیالوں کے الجھے دھاگوں کے لچھوں میں پھنسے رہتے ہیں۔

لیکن احمد، عالیہ اور اسلم کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ تینوں زندگی کی سو سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کی ہمتیں اب بھی جوان ہیں اور ایک بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ جینے کی تمنا اور سیکھنے کی آرزو اب بھی باقی ہے۔ پرانی یادوں کو یاد کر کے کبھی مسکراہٹوں کی کرنیں بکھیرتے ہیں تو کبھی آنسوؤں کی جھڑی لگاتے ہیں۔ لیکن پچھتانے کیلئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب پوری طرح مطمئن، مضبوط اور مستحکم ہیں۔

ان کا طرز عمل نہایت شائستہ اور مہذب ہے۔ ان کی سوچتی، پوچھتی نگاہیں اب بھی زندگی کی راہوں پر سچائی اور خوبصورتی تلاش کرتی ہیں۔ ان کی زندگی کا دریا پوری آب و تاب سے گول اور سپید سنگریزوں پر بڑبڑاتا ہوا دوڑ رہا ہے۔ یہ اب بھی پہاڑوں کی اس طرف کھلے میدانوں میں ان گنت راہوں کو یاد کر کے خوشیاں بٹورتے ہیں جن پر چل کر اس لمبی تھکا دینے والی زندگی کا سفر وہ طے کرتے رہے۔

وہ چلتے تو پگڈنڈی کے کنکر ادھر ادھر گھاٹیوں میں لڑھک جاتے کہ ان کے زریں جوتوں پر کھرونچیں نہ پڑیں۔ غروب آفتاب کے بعد جب پربتوں میں نصف چاند کی زرد روشنی سنسنانے لگتی اور دور گھاٹی میں جھرنے کے کنارے مینڈک بے سری اڑاتے تو چلتے قافلے رک جاتے اور ٹھکانا کرتے۔ اونٹوں کے گلے کی گھنٹیوں کی ٹن ٹن تھم جاتی۔ ان کو یاد ہے وہ بھی کبھی ان قافلوں کا حصہ رہے اور ستاروں کے جھرمٹ ایک تاباں بادل کی صورت اختیار کر کے ان کے سروں پر سایہ کئے تیرتے رہتے۔

چاندنی رات اور مکمل سناٹا، قدرت کی ایک نہایت خوبصورت تصویر ہے۔ سناٹے کے بغیر چاندنی اس تصویر کی مانند ہے جس کے رنگ دھوئیں اور گرد نے چوس لئے ہوں۔ بے جان چاندنی سے لپٹی ہوئی راتیں کسی کو نہیں بھاتیں۔ زندگی کا بھوت اگر چاندنی پر بھی اپنے بے ہنگم رقص اور چیختے چلاتے گھنگروؤں کے چرکے لگائے تو اس چاندنی سے وہ اندھیرا بھلا جس میں دل کی دھڑکنیں ہتھوڑے کی چوٹ بن کر بجتی ہیں۔

ڈوبتے سورج کے ساتھ صنوبر کے لمبے سائے پہاڑوں پر اور پہاڑوں کے لمبے سائے جھیل پر بچھ جاتے ہیں۔ پھر چاند کسی دراز قد صنوبر کی ڈالی کی اوٹ سے نکل کر ہر طرف دودھیا چاندنی بکھیر دیتا ہے۔ گرجتی خاموشیاں، شرماتی سرگوشیاں، اور پھر صبح کا ستارہ پر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔ بڑھیا جو اپنے سوکھے ہوئے بازو کا تکیہ بنائے کھاٹ پر آنکھیں موندے لیٹی تھی، اٹھ بیٹھتی ہے۔

دھندلے افق پر پو پھٹنے لگتی ہے تو چاندنی اور سناٹا، پہلے صبح صادق کے مٹیالے اجالے اور پھر تیز روشنی اور شور و غل کیلئے اپنی جگہ خالی کر دیتے ہیں۔ ساری فضا سایوں سے بھر جاتی ہے۔ ایک مسمسی صورت والی بلی جو چولہے کے کنارے اپنی دم کا آخری سرا اپنے اگلے پنجوں میں دبائے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی، اچانک مالکن کی ٹانگوں سے نکل کر تیر کی طرح چڑیا پر حملہ آور ہوتی ہے اور بہت دور ایک موڑ پر، سفید چٹان کے پاس، باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ سر سبز وادیوں میں دریا کے کنارے شیر دھاڑتا ہے۔

نصف شب کے سیمیں سناٹوں میں نہ تو کوئل کی کراہیں اچھی لگتی ہیں اور نہ پپیہے کی ہچکیاں۔ اس وقت اگر کوئی چیز دل کو بھاتی ہے تو وہ ہے پیلا چاند، جو دور مغربی پربت کی چوٹی پر، ایک اونچے صنوبر کی آخری پھننگ پر ٹھوڑی رکھے سونے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے۔ یا پھر دل دہلا دینے والی دھپ کی وہ آواز کہ جب دو چار پتھر اچانک لڑھک کر ایک خاموش جھرنے میں جا گریں اور جھرنے کی سطح پر چاند کا سویا ہوا سایہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دیر تک تڑپتا رہے۔

باقی ہر قسم کی آوازیں چاندنی کی لطافت پر چھا جاتی ہیں۔ چاندنی پر چھا جانے والی آفتوں سے ہر وہ انسان نفرت کرتا ہے جو چاند کے دودھیالے اجالوں میں نہایا ہو اور نقرئی کرنوں کی بے آواز پھواروں میں بھیگا ہو۔

Check Also

Imf Aur Pakistan, Naya Magar Shanasa Manzar

By Khalid Mehmood Rasool