Yadon Ke Timtimate Diye (2)
یادوں کے ٹمٹماتے دئیے (2)
عالیہ احمد راؤ کہتی ہیں میرے پاس کئی خوبصورت یادیں ہیں۔ بعض اوقات میں اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھ جاتی ہوں اور پرانی یادوں کی یاد میں کھو جاتی ہوں۔ میں اپنے ذہن میں موجود لوگوں کی کہانیوں کی چھان بین کر کے ان کو ایک نئے انداز میں مرتب کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ پھر دوبارہ ان کو گڈ مڈ کرتی ہوں اور پھر ان کے جوڑے بناتی ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ یہاں کچھ بڑے اچھے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو پا کر بڑے خوش رہیں گے کیونکہ وہ بہت ہی پیارے لوگ ہیں۔
عالیہ احمد راؤ، عالیہ، اس کو عالیہ ہی کہیں گے، کیونکہ یہ ایک ہندوستانی نام ہے۔ وہ عالیہ جس کے چہرے پہ رنگ تھا، بالوں میں چمک تھی، آنکھوں میں جادو تھا۔ گالوں میں جوانی کے گلابوں کے علاوہ جذبات کے دہکتے انگارے تھے، اعضاء میں غیر محسوس لچک تھی، انگڑائی یوں لیتی جیسے فضا میں ابھر کر تیرنے لگے گی۔ سانس لیتے ہوئے اس کے سارے جسم میں مبہم سا لوچ تیر جاتا۔ انداز اور آواز میں غضب کی چاشنی تھی۔
ہاتھ نرم اور لچکدار تھے۔ اس کے پاؤں کنول کے پھول کی طرح نازک اور روئی کے گالوں کی طرح بے آواز تھے۔ جوانی کا خون جوش مارتا تو اچانک اس کا دل کسی اور دھن میں دھڑکنے لگتا۔ اچانک رات کا سکوت دبے پاؤں آتا اور اس کے کانوں کے قریب سرگوشی کرتا۔ "اب کیا ہو گا؟" پھر وہ اپنے خیالوں کی محفل سجاتی، خیالی بہشتیں بساتی، بالکل انہونی باتیں سوچتی، ریت کے محل تعمیر کرتی۔ خیالوں کے پتنگے اندھیرے کونوں سے چمٹ جاتے۔
مزاج کی رنگینی مرجھاۓ ہوئے خیالوں کیلئے ساون کی پھوار ثابت ہوتی۔ اس کے صاف اور سرخ چہرے میں آنکھیں ساحل سمندر پر پڑی سیپیوں کی طرح چمکتیں۔ ڈوبتے چڑھتے سورج کی کرنوں سے ان میں شہاب ثاقب کی سی چمک پیدا ہوتی۔ لیکن اب ان آنکھوں کے کنارے مکڑیاں ٹانگیں پسارے پڑی ہیں۔ اس کی سیاہ بھنویں جو کبھی چاند سی روشن پیشانی پہ کمان کی طرح تنی رہتی تھیں۔ اب بوڑھے ماتھے کی لکیروں میں پھنس کے رہ گئی ہیں۔
سوچ کی سنجیدگی نے اس کے چہرے کی جھریوں کے جال کو گہرا کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کے بڑھاپے کی کشتی ہولناک سمندروں کی کف آلود لہروں میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ لیکن اس کی خوش مزاجی اب بھی قائم ہے اگرچہ قہقہوں کی وہ فلک شگافی باقی نہیں ہے۔ ایک خوابناک اور خوشگوار ہنسی، جو گھنٹی کی طرح بجتی اور دریا کی موجوں کی طرح بہتی۔ لیکن ہلکے سروں کی، روح کے شگاف بھر دینے والی، مسکراہٹیں وہ اب بھی بخوبی بکھیر سکتی ہے۔
وہ سسکیاں جو اس کے مقدس دل میں قید ہیں۔ اگر کبھی اسے رونے پہ ابھارتی ہیں تو نچلا ہونٹ دانتوں میں داب کے روتی ہے۔ وہ اب بھی وقت سے بہت کچھ چھین لینے کی آرزو رکھتی ہے۔
تیری قربت کے لمحے ہیں پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں ہیں مختصر
ایک سو تین سال، اے میرے اللہ یہ میں ہی ہوں۔ "تین" میری خوش نصیبی کا ہندسہ ہے۔ میں ہمیشہ سے ہی خوش نصیب رہی ہوں۔ میں کبھی بدنصیب نہیں رہی۔ اللہ مجھے نظر بد سے بچائے۔ میں 1913 میں بھوپال میں پیدا ہوئی اور میں جب چھوٹی بچی تھی تو اپنے نانا نانی کے ساتھ ہندوستان میں رہتی تھی کیونکہ میرے ابا جنگی قیدی تھے۔ پھر جب میرے والد جنگ سے واپس ہوئے تو ہم ان کے ساتھ رہنے کیلئے ہندوستان کے ایک اور شہر کراچی آ گئے جسے بعد میں انگلستان سے آزادی کے بعد ایک آزاد ملک پاکستان کا دارالخلافہ بننا تھا۔
مجھے ہر چیز خوشی دیتی ہے۔ مجھے لوگوں سے بات کرنا اچھا لگتا ہے۔ میں کام کرنا پسند کرتی ہوں۔ مجھے بازار جانا اور خریداری کرنا بے حد پسند ہے۔ میں ایک مرتبہ خریداری کرنے گئی اور پھر واپس لوٹنے کو میرا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسی چیز رہ گئی ہے جو مجھے خاص طور پہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ میں عملی طور پہ ہر وہ کام کر چکی ہوں جو میں نے کبھی چاہا کہ مجھے کرنا چاہئے۔
میرے پاس خوبصورت یادوں کا بیش بہا خزانہ ہے۔ میں ان اچھی یادوں کے سہارے سدا خوش رہ سکتی ہوں۔ اگرچہ زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے۔ لیکن فی الحال میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں ابھی تک کافی مضبوط اور صحت مند ہوں بلکہ میں بہت ہی توانا ہوں۔ مجھے کبھی یہ احساس ہی نہ ہو سکا کہ میں اس قدر قوی ہوں۔ یہ سب کچھ اس خوراک کی وجہ سے ہے جو میری ماں باغیچے میں اگاتی اور پھر ہمیں پکا کے کھلاتی۔
جب ہم چھوٹے تھے تو ہم نے ہمیشہ تازہ خوراک کھائی۔ ہمیشہ باغ سے سیدھی ہانڈی میں اور ہانڈی سے پلیٹوں میں۔ اوہ! میری شادی، یہ مکمل طور پر حیرت انگیز تھی۔ روحانی، ربانی، پاکیزہ۔ جب احمد راؤ سے میری شادی ہوئی، میری عمر سولہ سال تھی۔ اس وقت سے ہم نے زندگی کا ایک ایک لمحہ ساتھ جیا۔ پھر ستر سال کی عمر میں وہ مجھے داغ مفارقت دے گیا۔ میں اس جبر کدے میں اکیلی رہ گئی۔ فطرت کو وحدت سے محبت ہے۔ اس کے ساتھ گزرے لمحے اب بھی دامن دل کھینچتے ہیں۔ وہ چلا تو گیا ترک محبت کرنا بھول گیا۔
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
میری یہ حسرت تھی کہ میری شادی ایک وجیہہ و شائستہ انسان سے ہو۔ میں خوش نصیب تھی کہ احمد راؤ کی شکل میں یہ دونوں مجھے ایک ساتھ مل گئے۔ ہمیں ایسی صورتحال سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونا چاہئے۔ خاص طور پہ اگر یہ پہلی پہلی محبت ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز اس سے اچھی نہیں ہو سکتی۔
بڑی امید تھی کار جہاں میں دل سے مگر
اسے تو تیری طلب میں خراب ہونا تھا
جب اللہ نے مجھے پہلی اولاد سے نوازا، یہ دو جڑواں بچے تھے۔ لیکن میری یہ خوش نصیبی تادیر قائم نہ رہی۔ میری قسمت میں داغ جگر جیسی نعمت لکھی تھی۔ جلد ہی یہ دونوں پیارے بچے یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ میری زندگی کا سب سے الم ناک لمحہ تھا۔ لیکن پھر اللہ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا، میں اس کی رفاقت سے بہت زیادہ لطف اندوز ہوئی اور اس سے ٹوٹ کر محبت کی۔ رنج و راحت کے یہ دریا ازل کے ساتھی ہیں۔
جب میں نے اپنا پہلا بچہ کھویا، جڑواں میں سے ایک، تو ایسے لگا جیسے میں مکمل طور پہ ویران ہو گئی ہوں۔ لیکن آخر کار آپ اس کے عادی ہو جاتے ہیں کہ زندگی بے نیاز چلتی ہے۔ کتنا شریف، بہادر اور خاندانی ہے یہ مسافر۔ زخم بھر جاتے ہیں، فراموش نہیں ہوتے، نشان چھوڑتے ہیں۔ آپ یہ سیکھتے ہیں کہ کسی کو پیچھے چھوڑ آنا دراصل کتنا تعجب خیز ہے۔ وہ بھلے یہاں زندہ نہ ہوں، وہ وہاں موجود ہیں، وہ آپ کی یادوں میں زندہ ہیں، وہ آپ کی فضاؤں میں زندہ ہیں۔
وہ آپ کی تمام اطراف موجود رہتے ہیں اور اپنی موجودگی کا باقاعدہ احساس دلاتے ہیں۔ یہ ایک بہت حیرت انگیز احساس ہے۔ میں اپنے ان بچوں کے بارے میں بہت زیادہ سوچتی ہوں۔ حتیٰ کہ آج بھی اتنے سالوں کے بعد بھی۔ میں آج بھی یہاں بیٹھ کے ان سے بات کر سکتی ہوں اور میں ان سے ایسے بات کرتی ہوں۔ جیسے وہ آج بھی زندہ ہیں۔ جب لوگ میرے پاس سے گزرتے ہیں اور مجھے اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے سنتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ میں شاید دیوانی ہوں لیکن میں دیوانی نہیں ہوں۔ میں پورے ہوش و حواس میں اپنے بچوں کے متعلق سوچتی ہوں۔
مجھ سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا مجھے اپنی حیات گزشتہ سے متعلق کوئی رنج، کوئی ندامت، پچھتاوا یا تاسف ہے؟ میں آپ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے بتا سکتی ہوں۔ کوئی بھی نہیں، ایک بھی نہیں، بالکل ذرہ برابر بھی نہیں۔ میں نوجوان بچیوں کیلئے یہ تجویز کروں گی کہ اگر انہیں کوئی اچھا انسان مل جائے، جسے خاوند بنایا جا سکے، تو انہیں اس سے شادی کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ صرف اکٹھے رہنا ٹھیک نہیں۔ شادی کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ قریب، بہت قریب، بالکل قریب تر۔
مجھے کچھ یوں لگتا ہے کہ اگر آپ خوش ہیں تو آپ کو خوشی سے شادی کر لینی چاہئے اور خوشی خوشی رہنا چاہئے۔ یہ تمام بیماریوں کا بہترین علاج ہے۔ کیونکہ ہر چیز میں ایک مکمل ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ یہ ایک بہت اچھا خیال ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہمارا رویہ بہت اچھا ہونا چاہئے۔ ہمیں ان کی عزت کرنی چاہئے۔ جس حد تک ممکن ہو سکے ان کے کام آنا چاہئے۔ اس کا بدلہ سینکڑوں گنا ہے۔