Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Shakespeare Ki Aafaqiat

Shakespeare Ki Aafaqiat

شیکسپئیر کی آفاقیت‎‎

آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم چین کے ایک طالب علم کی کہانی بڑی مشہور ہے۔ اس نے جب سٹیج پر شیکسپئیر کا مشہور ڈرامہ "ہیملٹ" دیکھا تو حیرت و مسرت سے چلا اٹھا۔ یہ تو میری کہانی ہے۔ "ہیملٹ" کے اور میرے مسائل میں کتنی مماثلت ہے۔ "ہیملٹ" ضرور چین کا باشندہ ہے۔ شیکسپئیر بڑی آسانی سے زمان و مکاں کی حدود سے آگے نکل جاتا ہے۔ وہ نوع انسانی کا ایک عظیم ورثہ ہے۔

بن جانسن جیسے کھٹور کلاسیکی نے شیکسپئیر کے ڈراموں اور نظموں کی آفاقی اپیل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے "وہ زمانے کی روح ہیں! ایک پُرزرو تحسین ہیں! انتہائی فرحت افزا ہیں! اور سٹیج کا معجزہ ہیں۔ " اسی نظم میں جانسن بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ "وہ کسی ایک عہد کے لئے نہیں بلکہ تمام زمانوں کے لئے تھا۔ "

شیکسپئیر صرف انگلستان کا نہیں، پوری انسانیت کا شاعر ہے۔ مزید براں وہ جو کچھ بھی تھا کوئی مصلح نہیں تھا۔ پولونیس، لیریٹیز کو ہدایت کرتا ہے کہ نہ تو قرض لینے والے بنو اور نہ ہی دینے والے۔ لیکن شیکسپئیر نے خود دونوں کام بہت کھل کر کئے۔ یعنی قرض دینے والا بھی اور لینے والا بھی۔ اس نے اپنے دور کی تسلیم شدہ ڈرامائی روایات سے دل کھول کر چیزیں مستعار لیں۔ مارلو اور کڈ، گرین اور للی، اس کے گُرو تھے۔ الغرض شیکسپئیر نے روایت سے ناطہ نہیں توڑا۔ ؎

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کیسے ملکہ الیزبتھ کے دور کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے اس نے اپنے اندر کچھ ایسے امتیازی اوصاف پیدا کر لئے جن کی وجہ سے وہ امر ہو گیا۔ ؏

لکھتے ہیں آستینِ ہوا پر کہانیاں

ہاتھوں میں یہ کمال سا آیا ہوا تو ہے

شیکسپئیر بنیادی طور پر زندگی کا شاعر ہے۔ اس نے زندگی کا ہر رنگ قبول کیا، زنگ بھی، زر بھی، خوبصورتی بھی، بدصورتی بھی۔ اس کے بارے مڈلٹن مرے نے بڑا برمحل نقش کھینچا ہے کہ وہ جامعیت کی بلند و برتر قوت ہے۔ وہ نشاۃ ثانیہ کی ایک طُرفہ پیداوار ہے۔ شیکسپئیر زندگی سے محبت کرتا ہے۔ وہ "ہیملٹ" کے ذریعے انسانیت اور زندگی پر اپنے یقین کامل کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے۔ ؏

قدرت کا کیا شاہکار ہے انسان!

شعور میں کتنا نجیب! لیاقت میں کتنا جلیل!

وضع و روانی میں، کتنا نرالا و نفیس!

عمل میں کیسی ملکوتی صفات!

فہم و ادراک میں بے مثال!

جہاں کا جمال، جانداروں میں بے مثال۔

بقول جگر مراد آبادی:؏

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن

زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زباں نہیں

اسی طرح ایک اور جگہ شیکسپئیر کی ایک لازوال کردار "مرنڈا" غرقِ بحرِ تعجب ہو کر شیکسپئیر کی صدا کار بن جاتی ہے اور کہتی ہے:؏

اے جہانِ حیرت!

یہ عالمِ کون و فساد کتنی دلفریب مخلوقات سے بھرا پڑا ہے!

بنی آدم کے حسن و جمال کے کیا کہنے! اے جواں مرد جہانِ نو!

تو کتنے شاندار انسان رکھتا ہے۔

کوئی بھی بشری صفت اس کے احاطہ خیال سے باہر نہیں ہے۔ شاید زندگی کی یہ کُلی قبولیت ہی ہے جس کے ذریعے ہم شیکسپئیر کی آفاقیت کے نشان تلاش کر پاتے ہیں۔ جیسا کہ ایک نقاد نے اشارہ کیا ہے کہ اس نے اپنے عہد کو، دنیا کی نزاکتوں اور عظمتوں، زندگی کی ریل پیل اور بودوباش کے ترنگ سے نہایت ہی نفاست سے پار لگایا ہے۔

داغ دہلوی بھی شاید یہاں شیکسپئیر کے اسی جوہر قابل کو داد دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ ؏

دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے

جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے۔

کچھ نقطہ چینوں نے تاریخی اور حقیقی ہر دو اعتبار سے شیکسپئیر کی قوت متخیلہ کو اعلیٰ ترین سطح پر سراہنے سے گریز کیا ہے کہ ان کے نزدیک وہ الیزبیتھی دور کی روایات سے مکمل طور پر جڑا ہوا تھا۔ ان کے نزدیک شیکسپئیر میں جدتِ خیال نہیں تھی لیکن حقیقی شیکسپئیر اپنے دور سے یکسر مختلف تھا۔ وہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا جو شاید نقادوں کی آنکھ سے اوجھل رہا یا انہوں نے دانستہ اپنی آنکھیں موند لیں۔

وہ دراصل ازلی و ابدی سچائیوں، ثابت قدمیوں، لازوال جذبوں اور دائمی درد و غم، حزن و ملال کا شاعر ہے۔ انسانی روح نے اس کے شاہ پاروں میں بڑے شوخ و شنگ ترنگ میں اظہار پایا ہے۔ مردوں اور عورتوں نے اپنے زمان و مکان سے بے نیاز ان میں اپنے جذبات کی بازگشت پائی ہے۔ ان کے قہقہے اور آنسو، جذبات اور تعصبات، ارمان اور آرزوئیں اس کے شاہ پاروں میں کھل کر آشکار ہوئے ہیں۔ بقول ایک نامعلوم شاعر کے:؏

ہزاروں اشک قرباں اس کے افسردہ تبسم پر

چھپا لی مسکرا کے جس نے شدت دردِ پنہاں کی۔ (نامعلوم)

شیکسپئیر کے ڈرامے کسی بے مغز اور کھوکھلے زمانے کے عارضی اور ناکارہ راگ نہیں ہیں۔ ان میں کچھ ایسے الہامی خواص ہیں جو کہیں اور آسانی سے میسر نہیں ہیں۔ اس کے ڈرامے انسانی فطرت کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچتے ہیں اور وقت کی قید سے ماورا، انسانی کردار میں ممکنہ طور پر جو بھی حسن اور صداقت ملتی ہے، اسے کشید کر کے سامنے لاتے ہیں۔ بے شک وہ زندگی کی حقیقی جھلک ہیں۔ وہ معاشرت پر گہرا غور و فکر اور زندگی کے باطنی اور روحانی نقش و نگار ہیں۔

انسانی ذوق تغیر پذیر رہتا ہے، اقدار بدلتی رہتی ہیں، ادبی معیارات بھی ہرگز مقدس نہیں ہوتے۔ الیزبیتھی، جیکوبین اور احیاء علوم کے زمانوں کے زیادہ تر ڈرامہ نگار اور لکھاری اکثر اوقات سنجیدہ غور و فکر کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ان میں سے کچھ تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں اور طلباء اور اساتذہ انہیں چار و چار خالص تعلیمی ضرورت پورا کرنے کے لئے پڑھتے ہیں لیکن شیکسپئیر کبھی بھی گمنامی کے اندھیروں میں گم نہیں ہوا۔

حتیٰ کہ بیسویں صدی میں بھی، جبکہ روایتی اقدار دہکتی کٹھالی میں گل سڑ رہی تھیں، جب نفسیاتی ناولوں اور فحش نگاری، سماجی و سیاسی قضیوں، مارکسی اور فرائیڈی نظریات مروجہ تخیل کو قبضے میں لے رہے تھے، اس وقت بھی شیکسپئیر میں لوگوں کی دلچسپی کم نہیں ہوئی۔ والتھر اِبِش اور لَیوِن سکللنگ کی لکھی ہوئی "شیکسپئیر کی کتابیات" میں شیکسپئیر کے متعلق حوالہ جاتی کتب کی فہرست چار ہزار اندراجات پر مشتمل ہے۔

ایک بالکل خام مشاہدہ کار بھی اس سے اندازہ کر سکتا ہے کہ شیکسپئیر ایک صنعت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ "شیکسپئیر ایک جائزہ" اور "شیکسپئیر سہہ ماہی رسالہ جات" شیکسپئیر پر تحقیق کا ایک بے تکان انسانی ولولے کی دستاویزات ہیں۔ کینتھ میور محسوس کرتا ہے کہ "شیکسپئیرانا کا سالانہ سیلاب چند پختہ کار تیراکوں کے سوا سب کو غرقاب کر دیتا ہے اور ان کے لئے شیکسپئیر کا باقاعدہ اور مکمل ادراک انتہائی کٹھن بنا دیتا ہے۔ "

یہ حال صرف مغربی ممالک میں نہیں ہے بلکہ جنوبی ایشیا خاص کر برصغیر پاک و ہند میں شیکسپئیر سے محبت میں برابر اضافہ جاری ہے۔ اگرچہ وضع قطع میں شیکسپئیر کے ڈرامے یہاں کی روایات سے ملاپ نہیں کھاتے لیکن ہیجانی طور پر مشابہ ہیں۔ نارمن مارشل کی یہ رائے شاید درست ہی ہے کہ پاک و ہند کے سامعین کا شیکسپئیر کے ڈراموں پر ردعمل بالکل الیزبیتھی دور جیسا ہے۔ پاک و ہند اور الیزبیتھی انگریزی دان شیکسپئیر کے عظیم المیہ ہیروز کے لئے ایک جیسی پر جوش ستائش رکھتے ہیں۔

پاک و ہند کے لوگ الیزبیتھی لوگوں کی طرح الفاظ کی طرزِ ادا اور لب و لہجے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دونوں ہی جوشیلی بصری قوت متخیلہ کے حامل ہیں۔ تاہم یہ صرف پاک و ہند کے باسی اور الیزبیتھی ہی نہیں تھے جو تنِ تنہا شاعرانہ فکر و فن کے عرش بریں یا اوج کمال پر پہنچ پائے۔ شاعری انسانی قلوب پر ایک ناقابلِ مزاحمت اثر چھوڑتی ہے۔ شعری ڈرامہ نثری ڈرامہ سے کہیں بڑھ کر ہماری قوتِ متخیلہ پر اثرانداز ہوتا ہے۔

Check Also

Wo Doob Marte Hain, Kuch Ziada Ho Gaya

By Syed Mehdi Bukhari