Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Sarisht e Mausam Ka Shikar

Sarisht e Mausam Ka Shikar

سرشتِ موسم کا شکار

کویت کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ اسلام آباد کا خوبصورت ہوائی اڈا سخت دُھند اور بارش کی لپیٹ میں ہونے کی وجہ سے بند ہے۔ بارش کا موسم، پھول، اور بچے دنیا کے خوبصورت ترین نظاروں میں سے ہیں۔ لیکن بعض اوقات تینوں ہی انسان کے لئے پریشانی اور مایوسی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اب اسلام آباد کے لئے پرواز رات گیارہ کی بجائے صبح آٹھ بجے روانہ ہو گی۔

ہوائی اڈے کی یہ پرانی لیکن وسیع و عریض اور شاندار عمارت اندرونی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے تنگ دل و تنگ نظر سی لگی۔ اب ایک ایسے تنگ و تاریک ہوائی اڈے پر اتنا وقت گزارنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ لیکن بہرحال صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ہم کوئی تین گھنٹے ہوائی اڈے کا ہر قابلِ دید و ناقابلِ دید حصہ چھاننے کے بعد ایک ایک کر کے کویت ائیرویز کے ہوائی اڈے کے اندر موجود دفتر کے سامنے اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔

کچھ شب بسری کے لئے ہوٹل میں کمرے کے لئے گزارشات اور کچھ اپنا حق سمجھتے ہوئے پرزور مطالبہ کر رہے تھے۔ لیکن سب کو وعدۂ فردہ پر ٹالا جا رہا تھا۔ جب رات کا ایک بجا تو پہلی دنیا کے پری چہرہ مسافروں نے باقاعدہ دھمکیاں دینا اور اپنے انسانی حق کی لڑائی لڑنا شروع کی تو ایئرلائن کے عملے کے دل و دماغ پر کچھ اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے۔

ایک صاحب اور ایک صاحبہ آئے اور فرمایا کہ ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسافر صاحبان الگ ہو جائیں اور فرمایا کہ آپ لوگ رات صبروشکر کے ساتھ ہوائی اڈے پر ہی بسر کریں گے، کیونکہ ہوٹل ہوائی اڈے سے باہر ہے، اور آپ لوگوں کو ویزہ دینے کی سرکارِ کویت اجازت نہیں دیتی۔ جرمن، آسٹریلین اور امریکن مسافروں کو باہر بھیجنے اور ہوٹل میں ٹھہرانے کے انتظامات ہونے لگے۔

اب ایک فضائی مسافر جو اس طرح کسی ہوائی اڈے پر پھنس جائے اس کے لئے مقامی ویزہ قانون کیا کہتا ہے۔ اس قانونی پیچیدگی کا مجھ جیسے عام نیم خواندہ مسافروں کو علم نہیں ہوتا۔ نہ ہی ہوائی اڈے پر کوئی قانونی مدد میسر ہوتی ہے۔ یہ سن کر ذہن میں بےشمار سوالات ابھرے۔ انسانی حقوق کے، انسانی برابری کے، اپنے مسلمان ہونے کے، ایک برادر اسلامی ملک کے ہوائی اڈے پر ہونے کے، کالے اور گورے کے، انصاف کے، جہالت اور خواندگی کے، تعلیم و تربیت کے، اور نہ جانے کیا کیا۔

اور یہ کہ آخر اس صورتِ حال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے، اپنے آپ کو، اپنے ملک کو، اس برادر اسلامی ملک کو، دنیا میں کالے گورے کی تقسیم کو یا پھر انصاف کے اس نظام کو۔ ویسے انصاف، مساوات اور انسانی برابری کی بات تو ہم خوب کرتے ہیں، خاص کر ہمارے مغربی دوست جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے پوری دنیا کے انسانی حقوق کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔

لیکن اس رات ہمارے کسی مغربی ہم سفر کو ہم بے بسوں کے حق کے لئے بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بس اپنی ذات ہی کے لئے سب کچھ حاصل کرنے کی سعی کرتے رہے۔ دل و دماغ کے کسی گوشے سے جواب موصول نہ پاکر اپنے جیسے دوسرے مسافروں کے ساتھ انتظار کی گھڑیاں گننے میں مصروف ہو گیا۔

ہاں اس دوران عملے میں موجود ایک رحمدل خاتون نے ہمیں ایک ایک ٹوکن عطا فرمایا کہ اوپر جا کر رات کا کھانا کھا لیں۔ ہم بصد شکر ٹوکن مٹھی میں دبائے ریستوران کی طرف بڑھ گئے کہ کچھ وقت بھی کٹ جائے گا اور آتشِ شکم بھی کچھ دھیمی پڑ جائے گی۔ اور سچ مچ آدھی رات کے اس ڈھنڈے ٹھار کھانے نے ایسا ایمانِ ابراہیم پیدا کیا کہ آتش شکم واقعی گلستاں میں بدل گئی۔ پیٹ میں پھول کھل اُٹھے۔ انٹریاں باغ باغ ہو گئیں۔

ہوائی اڈے پر ائرلائن کے عملے سے احتجاج کرتے مغربی اور مغرب زدہ مسافروں نے احتجاج کو بھی تیسری دنیا سے منفرد، کافی حد تک تہذیب کے دائرے اور تیسری دنیا کے طریقہ کار سے یکسر مختلف رکھا۔ جیسے کہ دوسرے سب معاملات میں وہ اپنے آپ کو ممتاز رکھتے ہیں۔ وہ قطار میں کھڑے رہے اور باری باری احتجاج کرتے رہے۔ سب نے ایک ساتھ جمگھٹا بنا کر اور اکٹھے ہو کر اپنے اپنے گلوں کی طاقت کو نہیں آزمایا اور ایک ساتھ چلانا اور اپنا حق مانگنا شروع نہیں کیا۔

ایک مسافر اپنا حق احتجاج کی تکمیل کرتا اور پیچھے ہٹ جاتا۔ پھر کچھ وقفے کے بعد دوسرا مسافر اپنا حق احتجاج استعمال کرتا اور پیچھے چلا جاتا۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان خاتون جو کہ چہرے اور ڈیل ڈول سے بالکل امریکی لگتی تھی، ساری صورتحال سے بے نیاز بڑے صبر اور آرام سے قطار میں کھڑی تھی۔ لگتا تھا کہ اس کا کسی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔

اس کے منہ میں زبان نہیں ہے، اس کو بولنا پسند نہیں ہے یا پھر وہ بات کرنے کی اذیت سے دوچار نہیں ہونا چاہتی۔ لیکن جب اس کی باری آئی تو اس نے بھی بھرپور احتجاج کیا اور کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ خیر ان سب نے بالآخر اپنا حق لے لیا اور باہر ہوٹل چلے گئے۔ رہ گئے تو تیسری دنیا کے ناچار لوگ۔ جنہیں شاید اپنے حق کی زیادہ پرواہ بھی نہیں ہے، اور شاید انہیں حق پانے کی خوشی سے لطف اندوز ہونے سے زیادہ حق نہ پانے کی اذیت سے دوچار ہو کر رونا دھونا زیادہ پسند ہے۔

ان پری چہرہ لوگوں کو گئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اعلان ہوا کہ تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے بھی ہوائی اڈے کے احاطے میں موجود ایک ہوٹل میں شب بسری کا انتظام ہو گیا ہے۔ اور وہ تشریف لائیں اور ہوٹل روانگی کے لئے بس میں بیٹھیں۔ سب کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے کہ کل صبح جہاز میں سوار ہونے سے پہلے جسم کو کچھ آرام میسر آجائے گا اور وہ تازہ دم ہو کر جہاز پر سوار ہو کر منزل مقصود پر پہنچ کر اپنے خاندانوں سے خوشگوار ملاقات کر سکیں گے۔

اب نہ جانے یہ ہوٹل آسمان سے نازل ہوا یا کسی زیر زمین خزانے سے دریافت کیا گیا کہ چند لمحے پہلے ائرپورٹ کے اندر نہ کوئی ہوٹل تھا، اور نہ ہی باہر جانے کےلئے ویزہ۔ اتنا کھلا جھوٹ بولا ہی تھا تو اس پر قائم رہتے۔ بے چارے مسافر تو ائرپورٹ پر ہی شب بسری کے لئے صبروشکر سے تیار ہو گئے تھے۔ بقول ظفر اقبال صاحب۔

جھوٹ بولا ہے تو اس پر قائم رہو ظفر

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے

ہوائی اڈے کے احاطے کے اندر ہی اندر تھوڑے ہی سفر کے بعد ایک خوبصورت ہوٹل آ گیا، سب کو کمرے دے دیے گئے اور پھر ایک پر تکلف رات کا کھانا۔ یہ دراصل اس رات کا دوسرا کھانا تھا کہ ایک کھانا تو ہم ہوائی اڈے کے ریستوران سے پہلے ہی کھا چکے تھے۔ کچھ کھانے پینے کے شوقین مسافر ایک دفعہ پھر ڈنر سے لطف اندوز ہوئے، کچھ وقت گزارا، کچھ باتیں کیں اور اپنے اپنے کمروں میں آکر خواب خرگوش کی آغوش میں چلے گئے۔

کہ صبح سویرے پانچ بجے بیدار ہو کر ایک دفعہ پھر ہوائی اڈے پہنچنا تھا تاکہ آٹھ بجے والی پرواز میں بیٹھ کر اسلام آباد پہنچا جا سکے۔ سب مسافر وقت مقرر پر ہوائی اڈے پہنچ گئے۔ معمول کی کارروائی کے بعد سب جہاز میں اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ میری ہم نشست وہی نوجوان امریکی خاتون تھی جس کا ذکر پہلے ہو چکا کہ بالکل خاموش اور بے نیاز کھڑی اپنے ساتھی مسافروں کو احتجاج کرتے دیکھتی رہی کہ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔

سب کچھ ٹھیک اور معمول کے مطابق ہے۔ لیکن پھر اپنی باری آنے پر اپنا فرض خوب نبھایا اور ائرلائن کے عملے سے اپنا حق احتجاج پوری مہارت سے استعمال کیا۔ اب میری بائیں جانب ایک نشست چھوڑ کر رات سے کچھ زیادہ آرام اور اطمینان سے بیٹھی اپنی کلائی پر بندھی سمارٹ واچ سے کھیل رہی تھی۔ ان دنوں سمارٹ واچ نئی نئی اور شاید صرف امریکہ تک ہی پہنچی تھی کہ مجھے کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہوا کہ اس گھڑی میں کیا خاص بات ہے۔

کہ اس جوانسال خاتون کو مسلسل تین گھنٹے سے اس قدر مصروف رکھا ہوا ہے۔ اپنے آس پاس سے بے نیاز پورے تین گھنٹے وہ اس سے کھیلتی اور لطف اندوز ہوتی رہی۔ میں نے بھی زیادہ توجہ نہیں دی اور اپنے نئے نئے خریدے گئے آئی پیڈ میں مگن رہا۔ جب سفر کوئی آدھا گھنٹہ رہ گیا تو میں نے سوچا کہ دنیائے اوّل کے ملک اوّل کی اس کم گو، دلچسپ اور تہذیب یافتہ خاتون سے پرواز کے آخری لمحات میں کم از کم تھوڑی سی گفتگو کر ہی لی جائے۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کو اختتام سفر کہنا پڑے کہ کیسے بے ذوق اور خشک مغز و خشک تار و خشک پوست ہمسفر سے پالا پڑا۔ بعد از سلام میں نے انگریزی میں دریافت کیا کہ کیا آپ ہمارے بے حد خوبصورت ملک پاکستان سیر کے لئے تشریف لا رہی ہیں یا پھر اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں کام کرتی ہیں۔ اس نے انتہائی شستہ اردو میں انتہائی تہذیب اور ادب سے جواب دیا، دونوں میں سے ایک کے لئے بھی نہیں۔

میں ایک پاکستانی ہوں۔ میرے والدین اسلام آباد میں پروفیسر ہیں۔ میں نے یہاں بیکن ہاوس سکول سے چار پانچ سال پہلے اے لیول کیا اور امریکہ پڑھنے کے لئے گئی تھی، اور اب پڑھائی مکمل کر کے لوٹ رہی ہوں اور یہ کہ میری منگنی ہو گئی ہے، اور اگلے مہینے میری شادی ہے۔ میرے ہونے والے خاوند سنگاپور میں رہتے ہیں، اور وہاں ایک نوکری کرتے ہیں۔

میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ بناؤ سنگھار کی دنیا نے کیا کمال کر رکھے ہیں۔ آپ کو اپنے ہم وطنوں کہ پہچان سے بھی دور کر دیا ہے۔ اس نے اپنی جلد بالکل امریکی گوریوں جیسی کر رکھی تھی، اور یہ یقیناً بناؤ سنگھار کی ترقی یافتہ صنعت کا ہی کرشمہ تھا۔ ناہموار بھدی جلد پر وہی چھوٹے چھوٹے تکلیف دہ نشان جو آنکھوں کو چبھتے ہیں۔

اللہ نے ہم جنوبی ایشیا کے باسیوں کو کیسی صاف ستھری، پر کشش، نرم وملائم اور چمک دار جلدیں عطا فرمائی ہیں۔ ہم اس پاک پروردگار کی شکرگذاری کی بجائے ناشکری کرتے ہیں، اور اپنی خوبصورت ہموار اور چمکدار جلد کو بناؤ سنگھار کے ذریعے بگاڑ کر سطح مرتفع بنا لیتے ہیں، کہ دیکھ کر آنکھوں میں کانٹے سے چبھیں۔ سفر تمام ہوا، ہوائی جہاز وقت مقرر پر اسلام آباد کے ٹھنڈے ٹھار، خوبصورت اور سرسبزوشاداب ہوائی اڈے پر اتر گیا۔

ہم ہوائی جہاز سے اترے، اپنا اپنا سامان وصول کیا اور سب کچھ بھول کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔

Check Also

Alfaz Ke Sar Par Nahi Urte Maani

By Abu Nasr