Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Piddu

Piddu

پدُو

پدُو کا اصل نام محمد سعید ہے۔ وہ ہمارا بہت ہی پیارا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ ہم اسے شیدُو اور ہمارے ایک چچا اور اس کے ماموں اسے پیار سے پدُو کہتے تھے۔ پدُو ایک نہایت ہی پیارا، دلچسپ کردار تھا اور اکلوتا ہونے کی وجہ سے کچھ لاڈلا بھی تھا۔ لیکن اس کی امی چونکہ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے بذات خود لاڈلی تھیں اس لیے پدُو کو مکمل لاڈلا پن نہ مل سکا۔ اور یوں وہ فائدے میں رہ گیا اور بگڑنے سے بچ گیا۔

پدُو کوئی سات آٹھ سال کا ہوا تو وہ اکلوتا نہ رہا کہ اس کے ایک چھوٹے بھائی کی پیدائش ہوئی۔ اس کا نام محمد نعیم رکھا گیا۔ لیکن اسے ایک سال کی عمر میں ہی نمونیہ ہوا اور مرض، مرض الموت ثابت ہوا۔ پدُو ایک بار پھر اکلوتا ہو گیا اور اب تک ہے۔ پدُو کا رنگ افق سے اٹھتی اور موسلادھار بارش برسا کے جل تھل کر دینے والی گھٹا کا سا تھا۔ جس کی وجہ سے اسے کچھ طعنے بھی سننا پڑتے لیکن وہ کھلے دل و دماغ کا واقعہ ہوا اور طعن و تشنیع کو اپنے اوپر زیادہ اثر انداز نہ ہونے دیتا بلکہ اس سے الٹا لطف اندوز ہو کر ایسا کرنے والے کو خاصا مایوس کرتا۔

لیکن سکول میں پھیلے پھاکڑے سے تیمم کر کے جب گھر لوٹتا تو رنگ کچھ آسمان پر چہل قدمی کرتے برسے بادل کا سا ہو جاتا اور یوں وہ کافی قبول صورت ہو جاتا۔ پڑھائی میں انتہائی ہونہار تھا اور ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتا اور یوں بہت سی تعریفیں سمیٹتا۔ پدُو کے ابا نیوی میں کام کرتے تھے تو کراچی میں ہوتے تھے۔ ایک وقت آیا کہ پدُو ہمیں اکیلا چھوڑ کر، اپنی امی اور ہماری پھوپھی سمیت اپنے ابا کے ساتھ کراچی منتقل ہو گیا اور ہمیں بہت ہی اداس کر گیا۔

جب وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں واپس لوٹتا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ ہوتا۔ خوشی ایک طرح سے دوبالا ہوتی کہ ہماری پیاری پھوپھی بھی ساتھ واپس آتیں۔ ہم ان کا سال بھر انتظار کرتے اور یہ پل بھر میں چھٹیاں ختم کر کے واپس کراچی لوٹ جاتے اور ہمیں ایک بار پھر اگلے سال بھر کی گھڑیاں گننے اکیلا اور افسردہ چھوڑ جاتے۔ پدُو بھی یقیناً افسردہ ہوتا ہو گا لیکن پھر برسوں کے تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ جانے والے کی افسردگی اتنی شدید نہیں ہوتی، جتنی پیچھے رہ جانے والے کی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ فوراً اپنے سفر میں مصروف ہو جاتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا اکیلا بیٹھ کر جانے والے کی جدائی کا غم پی رہا ہوتا ہے۔

پدُو کے وہاں جانے کا مقصد اپنے ابا کے ساتھ رہنے کے ساتھ ساتھ کسی اچھے سکول میں پڑھنا بھی تھا۔ پدُو کے ابا اگرچہ بوجوہ میٹرک سے آگے باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکے، لیکن پڑھائی میں ان کا شمار اپنے وقت کے ہونہار طلباء میں ہوتا تھا۔ وہ چاہتے تھے ان کا ہونہار بیٹا بھی اچھا پڑھ لکھ کر زندگی میں مقام بنائے لہٰذا وہ پدُو کو کراچی ساتھ لے گئے۔ اب وہاں پہنچ کے مسئلہ یہ بنا کہ سکول والوں نے کہا کہ ہم تو ایک داخلہ ٹیسٹ لیں گے اگر پدُو پاس کر گیا تو بسم اللہ، ورنہ داخلہ نہیں ملے گا۔

پدُو کے ابا نے پدُو کو داخلہ ٹیسٹ کی خوب تیاری کرائی لیکن چند دنوں میں آخر کتنی تیاری ہو سکتی تھی؟ ٹیسٹ ہوا تو پدُو بری طرح فیل ہو گیا اور یوں سکول نے داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ پدُو کے ابا نے سکول انتظامیہ کی منت سماجت کی اور یقین دہانی کرانے کی سعی کی کہ ہم گھر پر اور آپ سکول میں پدُو کو بھرپور توجہ دیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ بچہ پرفارم کر جائے گا۔ بڑی مشکل سے سکول انتظامیہ داخلہ دینے پر رضامند ہوئی اور پڑھائی شروع ہو گئی۔

گھر پر پدُو کے ابا نے اسے بھرپور محنت کروائی اور وہ کافی بہتر ہو گیا لیکن مڈ ٹرم کا نتیجہ پھر بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں تھا اور سکول انتظامیہ ایک بار پھر پدُو کو سکول سے نکالنے کے درپے ہو گئی۔ پدُو کے ابا نے ایک بار پھر منت سماجت کی کہ ایک آخری موقع مرحمت فرما دیں اگر پھر بھی کامیابی نہ ہوئی تو ہم کوئی اور سکول تلاش کر لیں گے۔ آپ کو مزید پریشان نہیں کریں گے۔

اب جب سالانہ نتیجہ نکلا تو پدُو کلاس میں پہلی پوزیشن لے گیا۔ اب سکول انتظامیہ جہاں پہلے خراب نتیجے پر پریشان تھی اب اچانک اتنا اچھا نتیجہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی اور پدُو کے ابا کو اس بنیاد پر طلب کر لیا کہ آپ آخر ایسا کون سا تعلیمی گُر بروئے کار لائے کہ تہہ میں غوطے کھاتا بچہ اتنی جلدی سطح آب پر ماہرانہ تیراکی کرنے لگا۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ ایک تو سکول انتظامیہ کا خوف اور دوسرا میں نے تمام اسباق کے چارٹ بنا کر پدُو کے بیڈ روم کی دیواروں پر لگا دیئے اور پدُو کو بتا دیا کہ بیٹا جب بھی موقع ملے ان کو پڑھتے رہیں۔

اب پدُو جب بھی کمرے میں جاتا سبق سامنے موجود ہوتا اور سونے سے پہلے اور جاگنے کے بعد یہ چارٹ پڑھتا رہتا اور اس طرح اسے ہر سبق ازبر ہو گیا۔ اب تو پدُو شیر ہو گیا ہر کلاس، ہر ٹیسٹ میں اوّل آتا اور سکول انتظامیہ کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ لیکن پھر ایک اور معاملہ آن پڑا اور پدُو کے ابا کو پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پورے چار سال کے لئے بیرون ملک یعنی قطر لے گئیں۔

پدُو اپنی امی کے ساتھ اپنے ماموں کے پاس روہڑی چلا گیا اور وہاں سکھر کے ایک سکول میں داخلہ لے لیا۔ لیکن قدرت کو ابھی کچھ اور امتحان اور تبدیلیاں مقصود تھیں۔ پدُو اور اس کی امی وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کر سکے اور پدُو ایک سال بعد ایک بار پھر ہمارے پاس گاؤں آ گیا اور ایک بار پھر گاؤں کے سکول میں داخل ہو گیا۔ وہاں اس وقت تک پڑھتا رہا جب تک اس کے ابا قطر سے واپس نہیں آ گئے اور پدُو کو ایک بار پھر کراچی نہیں لے گئے۔

اب پدُو بڑا اور سمجھدار ہو چکا تھا۔ اچھا پڑھ لکھ سکتا تھا۔ کراچی جا کر اچھے نمبروں سے میٹرک کیا اور اسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مادرِ علمی ڈی جے سائنس کالج، جو اس وقت تعلیمی کارکردگی میں آدم جی سائنس کالج کے بعد پورے کراچی میں دوسرے نمبر پر تھا، میں داخلہ مل گیا۔ وہاں سے سائنس میں بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا لیکن اچھے نمبر نہیں لے سکا۔

لہٰذا اسے کسی اچھے انجینئرنگ سکول میں داخلہ نہ مل سکا اور یوں ہمارا پدُو اعلیٰ تعلیمی میدان میں کوئی خاطر خواہ کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکا جس کی اس سے قوی امید تھی۔ لیکن اس میں پدُو کی تعلیمی کارکردگی کے علاوہ بھی کچھ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے پدُو وہ مقام شرف نہ پا سکا جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔

تمام انسانی خواہشات کا پورا ہونا شاید قدرت کے منصوبے کا حصہ نہیں ہے۔ قدرت اپنی منصوبہ بندی کرتی ہے جو یقیناً انسانی منصوبہ بندی سے بہتر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ابا بھی نیوی سے ریٹائرڈ ہو گئے اور یوں پدُو اور اس کا مختصر خاندان کراچی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ کر اپنے آبائی گاؤں لوٹ آیا۔ لیکن اس پرانے ڈیرے پر نہیں بلکہ پدُو کے ابا نے گاؤں میں ایک پلاٹ خریدا اور وہاں ایک خوبصورت اور وسیع و عریض گھر تعمیر کیا اور وہاں رہائش اختیار کر لی۔

کچھ عرصہ بعد پدُو کو سکول ایجوکیشن میں نوکری مل گئی۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد پدُو کی شادی ہو گئی اور پدُو ہنسی خوشی اپنے خاندان کے ساتھ رہنے لگا اور اب تک رہ رہا ہے۔ اللہ اس کو اور اس کے خاندان کو ہمیشہ آباد، خوش اور خوشحال رکھے۔

Check Also

Deobandi Ulema Ki Siasat

By Muhammad Aamir Hussaini